سنو مجھے ٹرپل ون بریگیڈ کا نمبر دو


\"iffat\"بھئی بات اتنی سی ہے کہ ہم میں سے کچھ صحافی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ جنت کے دروازے پر بھی اپنا میڈیا کارڈ دکھا کر داخل ہو جائیں گے، جو فرشتوں نے اندر جانے سے روکا تو واویلا مچائیں گے، ٹور دکھائیں گے، تب بھی فرشتوں نے کو آپریٹ کرنے میں تردد سے کام لیا تو کہیں گے اللہ میاں دیکھیں آزادی صحافت پر قدغن لگائی جا رہی ہے ہم صحیفے لکھنے والوں کو کام سے روکا جا رہا ہے۔

بھیا تکبر اتنا کرت جتنے خود ہوت، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ ڈگری لیے ہفتہ ہفتہ دس دن نہیں بیتے کہ لگے دھونس بٹھانے، ادھر صحافی کا کارڈ ہاتھ آیا نہیں کہ ادھر لگے طرم خانی جھاڑنے۔

ایسا ہے کہ عمران خان کے دھرنے کی گونج شہر اقتدار کے چپے چپے سے آرہی ہے، ہم رپورٹرز بھی اپنی اپنی ایکسکلوسیو کی دوڑ میں مگن ہیں، اسلام آباد میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ اگر ایک باریک سوٹی یعنی چھڑی کو بھی کیمرے کے سامنے لا کر یہ کہا جائے کہ\” ناظرین یہ دیکھیں یہ سوٹی، یہ دھرنے والو کے لیڈران کو پڑے گی، حکومت کی تیاری بے نقاب ہوگئی، یہ خبر آپ تک صرف ہم نے پہنچائی \” یقین جانیے بڑی جاندار بریکنگ ہوگی۔ خیر ایسے ہی الا بلا واقعات کو رپورٹ کرنے کے دوران کچھ لطیفے بھی ہوجایا کرتے ہیں، ابھی کراچی کی خاتون اینکر کے گال پر پڑے تھپڑ کی لالی بھی نہیں گئی کہ بعض نو آموز صحافیوں کا جوش صحافت پھر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔
ہوا کچھ یوں کہ اسلام آباد میں نئے نویلے پریڈ گراونڈ کو حکومت نے دیسی ہائیڈپارک بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ وہی پریڈ گراونڈ ہے جہاں تئیس مارچ کو پاکستان افواج کی پریڈ ہوا کرتی ہے، پاکستان کے چنیدہ افراد ہاتھ میں جھنڈیاں لیے ہمارے طیاروں اور جانبازوں کی پھرتیاں دیکھتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جب اس جمہوری پارک کا نوٹی فیکیشن دیکھا تو ہم نے کیمرا ٹیم ساتھ لی اور اپنے کیری ڈبے میں پھپھڑاتے ہوئے ٹائروں کے دوش پر سیدھا پریڈ گراونڈ لینڈ کیا۔ راستے میں ایک اچھی شہرت کے نیوز چینل کی گاڑی بھی ہمارے ساتھ ہو لی۔ پریڈ گراونڈ میں داخلی راستے پر خاکی وردی والے جوان نے استقبال کچھ روایتی سوالات سے کیا، \”کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیا کام ہے؟ اور میڈیا کا نام سنتے ہی کہا \”سوری آپ آگے نہیں جا سکتے\”۔

میں جواب میں اس با ادب فوجی جوان کو سی ڈی اے کا وہ نوٹیفیکیشن دکھانے لگی اور کہا \” فوجی بھیا یہ شاید آپ کے بھی علم میں نہ ہو مگر اب اس گراونڈ کو بے بس جمہور کے لیے کھول دیا گیا ہے، یہاں اب جلسے جلوس ریلیاں اور نعرے بازی ہوا کرے گی، وقت ضرورت کوئی دل جلا یہاں پیٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا سکے گا، یہاں مخالفین کو اوے ابے تبے کہہ کر پکارا جائے گا، یہاں مذہبی جنونی کھلے عام دوسرے فرقے والوں کو کافر ٹھہرا سکیں گے، یہ جمہور کا ہائیڈ پارک ہوگا جہاں جمہوریت کے دیوانے لوگ آکر بک بک کریں گے اور حکومت ریڈ زون کے احاطے میں بغیر کسی چک چک کے خوش گپیوں سے دل بہلائے گی\”۔

میری عقلمندی سے بھرپور تقریر جاری تھی کہ یکایک ہمارے عقب میں کھڑی دوسرے چینل کی گاڑی سے ایک فیشنی رپورٹر ایک شان بے نیازی سے باہر آئیں، جھٹکے سے پیشانی پر لہراتی زلفوں کو پرے کیا اور ہاتھ میں پکڑے مائیک کو اور بھی شو آف کر کے فوجی بھائی سے پوچھا،

\” تم اندر کیوں نہیں جانے دے رہے \”۔

فوجی نے سپاٹ لہجے میں پھر وہی رام لیلا سنانی شروع کی جو مجھے کچھ لمحوں پہلے گوش گزار کی تھی کہ یہ پریڈ گراونڈ پاک فوج کے کنٹرول میں ہے اندر میڈیا کو داخلے کی اجازت نہیں۔

\”تمہارا بڑا کون ہے، کسی سینئر سے بات کراؤ\” حسین و جمیل خاتون رپورٹر نے لاپرواہی سے اپنے موبائل سے کھیلتے ہوئے گویا حکم سنا دیا۔

\”جی میرا تعلق 111 ٹرپل ون بریگیڈ سے ہے\” یہ کہہ کر وہ بیچارہ فوجی پلٹ گیا، شاید یہ سمجھا ہوگا کہ اتنا بتانا کافی ہے۔

جواب ملتے ہی خاتون رپورٹر نے موبائل تھامتے ہوئے زور سے اور رعب سے کہا \” اچھا سنو، مجھے اس ٹرپل ون بریگیڈ کا نمبر دو ذرا\”

اس سے پہلے کہ ہنسی کا فوارہ میرے منہ سے پھوٹتا، اس سے پہلے کہ اس فوجی پر مجھے شدید والا ترس آتا، اور اس سے پہلے کہ اس آفت کی ماری کو ٹرپل ون بریگیڈ کا آئینی، قانونی اور تاریخی تعارف کروانا پڑتا، میں نے اپنے کیمرا مین کو کہا \” چل بھائی یہاں ٹرپل ون بریگیڈ پر میڈیا کا چھاپہ پڑنے والا ہے، ہم نکلتے ہیں\”۔

میڈیائی کمپنیوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے اگر میڈیا اسٹڈیز کے ڈگری یافتہ دستیاب نہیں تو کم از کم ایسے افراد کو بطور رپورٹر اور اینکر بھرتی کریں جنہیں میڈیا اور دنیا کی بنیادی الف ب کا علم ہو، چلو اگر کسی کو زبردستی میڈیا میں کھپانا ہی مقصود مومن ہے تو للہ انہیں ایک روزہ \”جنرل\” نالج کی ٹریننگ ہی دے دیا کرو ظالمو۔

آئے بڑے، بیچاری وہ لڑکی، کتنا دل ٹوٹا ہوگا نا اس کا جب یہ پتا چلا ہوگا کہ ٹرپل ون بریگیڈ کا نمبر تو وزیراعظم کے پاس بھی نہیں، ہاں ٹرپل ون ٹرپل ون ٹرپل ون تین بار ملا کر دیکھ لیں شاید اسے کوئی اٹھا لے۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments