سندھ یونیورسٹی جامشورو کی اقراء اور شرابی ڈرائیور کی ہراسائی


جامشورو اپنی شوخ و چنچل ہوا، سندھ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اور مہران انجینئرنگ یورنیورسٹی کی وجہ سے مشہور و معروف ہے۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو سمیت ان تمام یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کی شکایتیں منظر نامے پر آتی رہتی ہیں۔ خواتین طالبات کو ہراس کرنے والے یہ بھیڑیے کبھی اساتذہ کی روپ میں نظر آتے ہیں تو کبھی کلرک اور دیگر اسٹاف کے بھیس میں۔ یہ بھیڑے کبھی طالبات کو فیل ہونے کے ڈر سے دھمکاتے ہیں تو کبھی نمبر لگوانے لے لیے یاری دوستی رکھنے کو کہتے ہیں۔

آئے روز ان یونیورسٹیز میں چھوٹے موٹے ہراسمینٹ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جو بغیر نوٹس لیے جام شورو کے تیز ہواؤں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان یونیورسٹز کی ہراسمینٹ مافیا کی گروپ بندی میں یہ بھیڑیے اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی کچھ بھی کر لے ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ یونیورسٹیز کی خواتین اساتذہ ہوں چاہے طالبات آخر کار مزید بدنامی کے ڈر سے چپ ہو جاتی ہیں اور پھر ایک نئی ہراسمینٹ شروع ہو جاتی ہیں۔ اساتذہ اور ملازمین کی تنظیمیں اپنے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے ایک ہو جاتی ہیں اور حوا کی بیٹیاں اپنی ہراسمینٹ کا واقعہ کہ کیسے ہوئی کیسے ہراس کیا اس نے دیکھا یا خود لذتی کی یا پھر ہاتھ لگایا کی اسٹیٹمنٹ دیتے دیتے خود ایک اسٹیٹمنٹ بن جاتی ہیں۔

جامشورو یونیورسٹی کی طالبہ اقراء شیخ کو تقریباً تین سالوں سے یونیورسٹی کا ایک ڈرائیور ہراس کر رہا ہے اور کافی دفعہ اسے ٹچ کرنے کی کوششیں بھی کیں اور دھمکی بھی دی کہ اگر ان کی بات نہ مانی تو وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کہیں بھی کر سکتے ہیں۔ اقراء شیخ نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ الزام لگایا کہ پہلے بھی یونیورسٹی انتظامیہ سے شکایت کی پر کچھ بھی نہ ہوا اور جہاں وہ کھڑی ہوتی ہے بس کے لیے اختر پٹھان نامی ڈرائیور اس کے گرد بس کے تیز چکر لگا کر اس کو ہراساں کرتا رہتا ہے اور آج تو اس بدتمیزی کے مظاہرے میں وہ پوائنٹ کے فرش پر جا گری۔

اقراء شیخ جن کی اور بہنیں بھی ہیں جن کے لیے وہ بہت پریشان ہیں کہ اگر ان کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو ان کی بہنوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ اقراء شیخ نے یہ بھی بتایا کہ اس ڈرائیور سمیت کئی اور ڈرائیور شراب نوشی کر کے پوائنٹ چلاتے ہیں اور اس ہراساں کرنے والے گروپ میں کچھ شاگردوں سمیت یونیورسٹی کے دیگر اسٹاف والے بھی شامل ہیں جو ہر وقت ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہتے ہیں۔ عام مشاہدہ میں دیکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی پوائنٹس کے اکثر ڈرائیورز ویسے بھی بدمعاشی اور تانک جھانک کے ماہر کھلاڑی ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے ان کی یونین کی پشت پناہی ہوتی ہے۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ پہیہ جام ہرتال سمیت کئی اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے یونیورسٹی انتظامیہ کو بے بس کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ذاتی مفاد اور گھریلو کام بھی کرتے رہتے ہیں۔

جب تک ان بھیڑیا نما لوگوں کو قرار واقعی سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک حوا کی بیٹیاں ایسے ہی ہراسمنٹ کا شکار ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments