کینیڈا میں الوداعی ڈنر اور رفیق دیرینہ سے ملاقات


24 جولائی 2019 ء کی شام کو ڈاکٹرخالد سہیل نے ہمیں الوداعی کھانے کے لئے ٹورنٹو کے گولڈن تھائی ریسٹورنٹ میں دعوت دے رکھی تھی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر ہم نے کینیڈا آمد کے بعد پہلا ڈنر کیا تھا۔ یہ ایک خوشگوار شام تھی۔ اتفاق سے ہمیں وہی ٹیبل ملی جس پرہم لوگ ٹورنٹو کی پہلی شام بیٹھے تھے۔ ہم نے مشروم سُوپ آرڈر کی۔ اور ڈاکٹر صاحب نے ہمیں وہ خط و کتابت پیش کی جو ہمارے بیچ اب تک ہوئی تھی۔

اس کے بعد ہم نے ابھی تک لکھا گیا سفرنامہ ڈاکٹر صاحب کو پڑھ کر سنایا۔ اس دوران ہم دونوں مشروم سوپ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی تخلیقات کے چیدہ چیدہ حصے ایک دوسرے کو سنا کر محظوظ ہوتے رہے۔ اس کے بعد بھیڑ کے گوشت کے سالن اور اُبلے ہوئے چاول پر مشتمل ایک لذیذ کھانا تناول کیا گیا۔ سفرنامے کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے بہت مفید مشورے دیے۔ اس کے علاوہ ہمارے درمیان انگریزی خطوط کا ایک نیا سلسلہ جو پہلے سے ہی شروع ہو چکا تھا، کتابی شکل دینے کی تجویز بھی انھوں نے پیش کی۔ جس سے ہم نے اتفاق کیا۔

اس دن، گولڈن تھائی ریسٹورانٹ میں بیٹھ کر ڈنر کرتے ہوئے ہمیں یقین نہ تھا کہ انگریزی خط وکتابت کا یہ سلسلہ ایک دن کتابی شکل اختیار کرلے گا، اور اس کا نام ”Literary Love Letters“ ہوگا۔

لمحہء موجود میں یہ کتاب کینیڈا میں طباعت کے آخری مراحل میں ہے۔ اس کتاب میں تیس سے اوپر خطوط ہیں۔ اس کتاب کی قوس قزح میں عالمی کلاسیکی ادب، مشاہیر ادب، اردو شاعری و ناول، سوانح عمری، فلسفہ، آپ بیتی اور ذاتی تجربات کے رنگ پائے جاتے ہیں۔

وطن واپس روانگی سے ایک روز قبل ٹورنٹو میں ایک بھرپور اور مصروف دن گزرا۔ صبح صبح ہمیں حامد بھائی اور ان کے صاحبزادے طاھا لودھی رائل آنٹوریو میوزیم دکھانے لے گئے۔ یہ عجائب گھر ٹورنٹو شہر کے تقریبا مرکز میں واقع ہے۔ میوزیم کی چار منزلہ عمارت جدید و قدیم طرز تعمیر کا ایک دلفریب شاہکار ہے۔ صدر دروازے سے داخلے کے بعد استقبالیہ پر موجود مختلف یونیورسٹیوں کے رضا کار طلبا و طالبات گائڈ کے فرائض سر انجام دیتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ اور ڈیوٹی پر موجود عجائب گھر کا عملہ بھی رہنمائی کے لیے چاک و چوبند اور مشتاق نظر آیا۔

یہ لوگ مختلف منازل پر موجود قدیم و جدید نوادرات و عجائبات بارے پوری جان کاری دیتے ہیں۔ وہاں پر رہنمائی کے لیے موجود عملے نے ہمیں مشورہ دیا کہ عجائب گھر کی سیر اگر اوپری منزل یعنی لیول 4 سے شروع کی جائے تو دنیا کی قدیمی تاریخ ایک بہتر ترتیب سے سمجھ آتی ہے۔ چنانچہ سکھلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہم نے عجائب گھر کے درشن کا آغاز سب سے اوپری منزل سے کیا۔

اس منزل پر، کائنات او ر خد ا کے مختلف تصوّرات کے بارے میں ہندوستانی، یونانی اور ایرانی روایات کو مجسم شکل دی گئی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا مروجہ تصور ارتقائی منازل طے کرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ اور یہ کہ خدا کے تصور کے پس منظر میں انسان کا اپنا خوف، احساس تحفظ ا ور جذبہ بقاء پنہاں ہے۔ ہمیں یہ سمجھ آیا کہ علم روشنی ہے۔ جہالت اندھیرا ہے۔ جوں جوں انسان سائنسی علم و آگہی میں ترقی کرتا گیا، اس کا خوف بتدریج کم ہوتا گیا۔ اسی طرح خدا کا تصور بھی مختلف ارتقائی منازل طے کرتا ہوا موجودہ شکل اختیار کر گیا ہے۔

تیسری منزل پر کرّہ ارض کے وجود میں آنے سے لے کر موجودہ زمانے تک کے ماحولیاتی ادوار اور اس پر گزرنے وا لے ارتقائی عوامل کو دکھایا گیا ہے، جس میں آگ کا دور، برف کا دور، پتھر کا دور اور کانسی کا دور شامل ہیں۔

دوسری منزل پر زمین پر پانی سے زندگی کا آغاز، آبی پودے، آبی جانور، خشکی کے جانور اور پھر حضرتِ انسا ن پر گزرنے والے ارتقائی ادوار کو آثارِقدیمہ اور انسانی قوتِ متخیلہ سے مجسم کیا گیا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ریڈیو میٹرک کاربن ڈیٹنگ Radiometeric Carbon Dating کے ذریعہ سائنسدانوں نے معلوم کیاہے کہ ہماری زمین کی عمر تقریباّ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ اس کرہ ارض پر حضرت انسان ساٹھ لاکھ سال قبل پیدا ہوا۔ اور یہ کہ انسان نے شعور اور جدید شکل دو لاکھ سال پہلے اختیار کی۔ جب کہ اس نے چھ ہزار سال قبل دجلہ اور فرات کے ڈیلٹا میں پہلا معاشرہ قائم کیا تھا۔ یہ لوگ سمیری تھے۔ حمورابی نامی اوتار نے اس وقت کے انسانوں کو دنیا کا پہلا ضابطہء حیات بھی دیا تھا۔ اس وقت انسان علامتوں کے ذریعے لکھنا شروع کر چکا تھا۔

اس سے قبل انسانی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس وقت سے قبل کا انسان غاروں جنگلوں اور آبی ذخائر پر وحشی طرز زندگی اختیار کیے ہوئے تھا۔ یہاں ہم اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ ا س جہان رنگ و بو میں سارا انقلاب اور ترقی اس وقت ظہور پذیر ہوئی جب فطرت انسانی دماغ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد کے معجزے، معرکے اور کارنامے انسانی دماغ ہی کی کارستانیاں ہیں۔

پہلی منزل پر دنیا میں حضرتِ انسان کے کارنامے اور معجزے، بالخصوص تعمیرات جس میں قدیم تہذیبوں یعنی مصر، چینی، یونانی اور ہندوستانی تہذیبوں کو مجسموں اورنمونوں کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔

زمینی منزل پر استقبالیہ اور زمانہ موجود کے مجسموں اور تعمیرات کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس منزل پر ایک گفٹ شاپ بھی ہے۔ مگر بہت مہنگی۔ یعنی وہاں ایک چائے کا کپ یا پانی پینے والا دھاتی گلاس آپ کو 30 ڈالر میں ملے گا۔ ہمارے پاس اتنی فراخدلی سے خرچ کرنے کے لیے پیسے نہ تھے، لہٰذا ونڈو شاپنگ پر اکتفا کیا۔

اس منفرد میوزیم کی سیر کے دوران ہمیں محترمہ عروج راجپوت کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ وہ رات کو ”چن ایف ایم ریڈیو“ پر ہمارا انٹرویو کرناچاہتی تھیں۔ محترمہ عروج راجپوت صاحبہ ایک مصورہ اور شاعرہ ہونے کے علاوہ چن ریڈیو Chin Radio Canada FM 100.7 پر بہت دلچسپ انداز میں میزبانی کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ جوٹورنٹو شہر کی کالج سٹریٹ پر واقع ہے۔ انٹرویو کا وقت رات گیارہ بجے طے ہوا۔

حامد بھائی، بہت رسان سے اپنی کار میں ہمیں ریڈیو اسٹیشن لے گئے مگر انٹرویو کے دوران خاموشی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ محترمہ عروج بہت محبت سے ملیں اور مختصر تعارف کے بعد ہم آن لائن ہوچکے تھے۔ گفتگو شروع ہوئی تو ہماری کتابوں پر بات کرنے کے بعد ہم سے پُوچھا گیا کہ اچھے لکھاری اور اچھے انسان میں کیا فرق ہے؟

ہمارا جواب تھا:۔

”لکھاری تین قسم کے ہوتے ہیں :۔

1۔ اچھا لکھاری، بُرا انسان

2۔ بُرا لکھاری، اچھا انسان

3۔ اچھا لکھاری، اچھا انسان

مگر زندگی ہر لکھاری، ادیب، شاعر، سکالر، فلاسفر اور آرٹسٹ سے تین امتحان ضرور لیتی ہے۔ اور اچھا لکھاری بالآخر وہ ہی ثابت ہوتا ہے جو ان آزمائشوں میں کامیاب ہو جائے۔

اور وہ ہیں :۔ عورت، شہرت اور دولت۔ اکثر فنکار، ادیب او ر شاعر ان امتحانات میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ”

چالیس منٹ کے انٹرویو میں ریڈیو چن پرعروج راجپوت سے بات چیت دلچسپ رہی۔

ایسے پروگراموں میں ( لائیو ) حقیقی فون کال بھی لی جاتی ہیں۔ اسی سلسلے جمیل باجوہ نامی ایک شخص نے ایک لایؤ کال کر کے میزبان عروج سے آج کے مہمان یعنی ہمارے بارے سوال کیا : ”کیا ہمارا تعلق پاکستان آرمی سے رہا ہے؟ اور یہ کہ کیا ہمارا تعلق 70 پی ایم اے لانگ کورس سے ہے؟ “ اور ہمارا جواب اثبات میں پا کر وہ بہت خوش ہوئے۔ کیوں کہ ان کی ایک رفیق دیرینہ سے ملاقات کے اسباب پیدا ہوچکے تھے۔

اگلے دن ہمارے ہمارے کورس میٹ ( ہم جماعت) ، میجر جمیل باجوہ ( ریٹائرڈ) کی ایک طویل فون کال موصول ہوئی۔ اتنے عرصے بعد ان کی آواز سن کر اور بیتے دنوں کی باتیں یاد کر کے ہمیں بے پناہ خوشی میسر آئی۔ اس دن ہماری پینتیس سال بعد بات ہو رہی تھی۔ اور پینتیس سالوں کے دوران کی آپ بیتی کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ انھوں نے بے پناہ محبت کا ا ظہار کیا۔ ہمارے درمیان ہماری وطن واپس روانگی کے دن ٹورنٹو ائیر پورٹ پر ملاقات بھی طے پا گئی۔ باجوہ ٹورنٹو میں چونکہ ائیر پورٹ سے قدرے دور رہائش پذیر ہیں اور وہ کام کا دن بھی تھا، ہمیں امید نہ تھی کہ ہماری ملاقات ممکن ہو گی۔

مگر آخری روز جب حامد بھائی او برخوردار ر طاھا ہمیں ائیرپورٹ چھوڑنے جا رہے تھے تو جمیل باجوہ کی کال آئی۔ اس وقت ہم ائیرپورٹ کے مضافات میں تھے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ائیر پورٹ ضرور پہنچیں گے۔ اور یہ کہ ہم ان کو ملے بغیر نہ جائیں۔ مگر راستے میں حادثاتی رکاوٹ او ر متبادل شاہراہ اختیار کرنے کی وجہ سے ہم پہلے ہی قدرے تاخیر سے دوچار اور تشویش کا شکار ہو چکے تھے۔ اور ملاقات تقریبا ناممکن لگتی تھی۔ اسی عجلت اور پریشانی کے عالم میں ہمیں چیک ان ہونا پڑا۔

بہرحال، جب ہم چیک اِن ہو چکے تو جمیل باجوہ ائیرپورٹ کی ڈراپ لین میں نمودار ہوئے اور حامد بھائی کے موبائل فون پر تواتر سے کالیں کرنے لگے۔ ہم اس وقت تک سیکورٹی چیک کی قطار میں کھڑے ہوچکے تھے۔ مگر ان کی بیتابی کو محسوس کر کے اور مزید تاخیر کا خطرہ مول لے کر واپس ڈراپ لین میں آگئے۔ آنکھیں دوچار ہوتے ہی باجوہ کی خوشی دیدنی تھی۔ ہم ان سے کیڈٹ شپ کے بعد تین دہایوں بعد اس دن مل رہے تھے۔ ہم جمیل باجوہ کے ساتھ اتنے عرصہ بعدکینیڈا کے ایک ائیرپورٹ پر اس طرح تین منٹ کے لئے ملیں گے؟ ذہن و گمان میں بھی نہ تھا۔ گویا یہ ایک جذباتی منظر تھا۔

ان کے ہاتھ میں تین بیگ تھے، جو ہماری فیملی کے لیے تحائف سے بھرے ہوئے تھے۔ اپنے رفیق دیرینہ کو اتنے طویل عرصے بعد اتنے کم وقت کے لیے ملتا دیکھ کر ہماری آ نکھیں بھر آیئں۔ ہم نے ان کے ساتھ ایک یاد گار تصویر بنوائی اور فقط یہ کہہ سکے ”اتنی مختصر ملاقات پر شرمندہ ہوں یار، یار زند ہ صحبت باقی“

ٹورنٹو کے پیئرسن ائیرپورٹ پر ہمیں سیکیورٹی چیک کے بعد پی آئی اے کی پرواز تک لے جانے کے لیے ایک شٹل بس میں بٹھایا گیا۔ میں بس کی سیٹ بیٹھ کر قطرہ قطرہ آبدیدہ، اپنے ادبی و ذاتی دوستوں بالخصوص ڈاکٹر خالد سہیل۔ حامد لودھی اور جمیل باجوہ کی بے لوث محبتوں پر حیران ہوتا اور دل ہی دل میں ان پر لاکھوں محبتیں نچھاور کرتا، وطن واپسی کے ہوائی جہاز پر جا بیٹھا۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments