سمندر شور کرتا ہے


رات کے پچھے پہر، شہر کے شور شرابے سے دور، ساحل پر بنے ہٹ میں وہ تنہابیٹھا خیالوں کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ وہ جو انسانوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے، دوستوں کے درمیان باتیں کرتے ہوئے اکثر تنہا رہتا تھا۔ سمندر کے پاس پہنچ کر خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا۔ لیکن سمندر اسے اداس کردیتا تھا، بہت اداس۔ اسے کئی بار خیال آیا وہ سمندر کی گہرائی میں اترجائے لیکن وہ جانتا تھا سمندر بھی اس کے ساتھ وفا نہیں کرے گا اور اسے کنارے پر اچھال دے گا۔

سمندر جو اسکادیرینہ دوست ہے آج بہت پرشور تھا۔ شاید طویل عرصے بعد دونوں کو تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع ملا تھا۔ سمندر کا شور بڑھتا جا رہا تھا، سمندر کے لہریں ساحل پر آگے بڑھ کر اب ہٹ کی دیواروں سے سر ٹکرا رہی تھیں۔

وہ دوستوں کے ساتھ کئی بار ساحل پر آیا تھا۔ کئی راتیں انہوں نے ساحل پر گزاری تھیں۔ زندگی کی باتیں، قہقہے اور اپنے اپنے دکھ۔ ۔ پردیپ، جس کی زندگی بچپن سے جوانی تک جہد مسلسل رہی ہے، ساحل پر پہنچ کر زندگی کی کڑواہٹ کو کڑوے گھونٹوں میں تحلیل کرنے کی کوشش کرتا۔ اور تھکاوٹ اس پر نیند طاری کردیتی۔

مرزا جو محبتوں کا اسیر تھا ہمیشہ کی طرح ترنگ میں آکر ساحل کی ریت سے ہوتا ہوا پانی میں جا کھڑا ہوتا اور سمندر سے باتیں کرنے لگتا۔ اور وہ اسے دیکھتا رہتا۔ وہ اس سے حیرت سے پوچھتا کہ کیا سمندر جواب بھی دیتا ہے۔ مرزا کا جواب ہوتا، ہاں، کبھی تم بھی سمندر سے باتیں کر کے دیکھو۔

آج اسے مرزا کی بات صحیح لگ رہی ہے۔ سمندر اس سے باتیں کر رہا ہے۔

مرزا کو اسلام آباد کا سرسبز جنگل کھا گیا ہے اور وہ کراچی میں کنکریٹ کے جنگل میں سانسیں بحال رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی کوشش اسے ہاکس بے کے ساحل کے ایک تنہا گوشے میں بنے اس ہٹ پر لے آئی ہے۔ آج پہلی مرتبہ وہ ساحل پر تنہا رات گزار رہا ہے۔

وہ رات کاٹنے کے لیے ساتھ لائی ساقی فاروقی کی کتاب پڑھنے لگتا ہے

پاوں میں سونے کے گھنگھرو باندھ کر، ناچتی ہے رات کی نیلم پری

روح کی اور جسم کی دیوار سے، اب بہت آگے نکل آئی ہے رات

ہم نہ جانے کون سے موسم میں ہیں۔

قریب ہی واقع گوٹھوں میں رات کے اس پہر نیند کاپہرہ ہے۔ تھوڑی دور پاور پلانٹس کے لیبر کیمپوں میں ملک بھر سے آئے محنت کش دن بھر کی تھکن سے چور گہری نیند میں ہیں۔ اور وہ ساحل پر اپنے ہٹ میں بیٹھا یادوں کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہے۔

وہ شام جب یہاں آیا تھا تو ہٹ کے سامنے چوکیدار کے چبوترے میں بیٹھا دیکھ کر سڑک سے گزرنے والے مقامی لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے، شاید وہ سوچ رہے ہوں کہ اس کایہاں کیاکام؟

ساتھ والے ہٹ پر کار یا موٹرسائیکل پر جوڑے آتے، چوکیدار سے کچھ بات کرتے اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے لیے ہٹ کے اندر چلے جاتے۔ اسے سڑک سے گزرنے والے لوگوں کا اسے ہٹ کے سامنے بیٹھا دیکھ کر حیرت کا اظہار کرنا کچھ کچھ سمجھ آنے لگا۔

شام کو ہٹ کے سبکدوش ہونے والے چوکیدار نے چابیاں اور ذمہ داریاں اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا:بھائی آپ نہ جانے کیا سمجھو لیکن حقیقت یہی ہے کہ شریف آدمی یہاں کام نہیں کرسکتا۔ ساتھ ہی اس نے برابر والے ہٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا یہاں یہی ایک راستہ ہے۔ وہ سوچنے لگا شریف آدمی کون ہوتا ہے۔ شرافت کیا ہے؟ کیا ساتھ والے ہٹ کا چوکیدار شریف آدمی نہیں ہے؟ اچھا اگر وہ شریف آدمی بن جائے تو کیا شرافت کا یہ تصور اس کے بچوں کا پیٹ پال لے گا؟

ایک ننہا سا مینڈک پھدکتا ہوا ہٹ کے کمرے میں آگیا اور وہ اپنے خیالوں سے نکل آیا۔ وہ مینڈک کو کمرے سے نکالنے کے لیے پلنگ سے اٹھ بیٹھا۔ اور پلنگ پر بچھی میلی چادر سرک گئی۔ اسے لگا چادر اور پلنگ کے نرم گدے میں کئی جسموں کی خوشبو بسی ہوئی ہے اور وہ کمرے سے نکل کر ٹیرس پر آگیا۔ اندھیری رات میں سمندر کا شور جیسے بڑھتا ہی جارہا تھا۔ کچھ دور ساحلی گوٹھ کی جیٹی پر کھڑی لانچوں سے آنے والی مدھم روشنی ان کی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی۔ بہت دور سمندرمیں بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کے انتظار میں کھڑے جہاز روشنی کے نقطوں کی صورت میں نظر آرہے تھے۔ اور اسے لگا سمندر اسے بلا رہا ہے۔

صبح ہونے پر ساتھ والے ہٹ کاچوکیدار دیکھنے آیا توہٹ خالی تھا۔ پلنگ سے چادر سرکی ہوئی تھی۔ سرہانے رکھی کتاب کھلی تھی۔ ننہا مینڈک کمرے میں پھدک رہا تھا۔ چوکیدارنے کھلی ہوئی کتاب اٹھاکر دیکھی۔ لکھا تھا۔

اب بہت تھک چکے ہو، اب سوجاو

اک سسکی ہوا میں بہتی ہے

رات سرگوشی میں کہتی ہے

روح کی آگ سے بدن کوبچاو

آگ سے اپنا پیرہن نہ جلاو

اب بہت تھک گئے ہو، اب سوجاو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments