پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ


ایک مستحکم جمہوریت کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ستون کا کردار ادا کرتی ہے بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے قیام کے بھتّر سالوں بعد بھی جمہوریت ایک نومولود بچے کی طرح بلک رہی ہے۔ جبکہ اس کی عمر کے ممالک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے میں ملک کے کئی اہم اداروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ زیادہ دور جانے کی بجائے اگر ماضی قریب میں ہی دیکھا جائے تو ہمیں نظر آئے گا سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس وقت کے منتخب صدر کے خلاف سوئس کیس کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھا جائے اور خط نہ لکھنے پر ایک قوم کے منتخب وزیراعظم سے عوام کی نمائندگی کا اختیار چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سلسلہ یہیں نہیں رکتا اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو پانامہ کیس کا سامنا کرتے ہوئے اپنی ملکی نمائندگی سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

اگر ایک غیر جانبدار رویہ اختیار کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انصاف کے کٹہرے سیاستدانوں کا احتساب کرنے سے زیادہ ان کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ قلم کا اختیار ہوتے ہوئے زبان کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور ان عدالتی ریمارکس کی بازگشت معاشرے میں سنائی دیتی ہے جن کی وجہ سے سیاستدانوں کے کردار عوام کی نظر میں مشکوک ہوگئے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کا نفاذ مشکل ہوگیا ہے اور قائم جمہوریت بھی ہر وقت متزلزل رہتی ہے۔

اگر یورپی ممالک کے نظام عدل پر نظر دوڑائی جائے تو ان کے کٹہرے عوام کے مسائل کی دادرسی میں مصروف نظر آئیں گے اس کے برعکس پاکستان کا عدالتی نظام ملک کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں سرگرم نظر آتا ہے۔ معاشرے کا حال ہم سب کے سامنے ہے کہ کس بیدردی کے ساتھ معصوم بچے اور بچیوں کو جنسی درندگی کے بعد قتل کر کے لاشیں کوڑے دان پر پھینک دی جاتی ہیں تو کوئی عدالت کی منزل سے چھلانگ لگا گر خودکشی کر رہا ہے۔

ایک جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اگست 2019 تک 17 لاکھ سے زائد کیسز مختلف عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں انصاف دینے والے اداروں کے حوالے سے انصاف حاصل کرنے کی امید کا دیا تیزی سے بجھتا جا رہا ہے۔

حالیہ چیف جسٹس کے کراچی میں پروٹوکول کو دیکھ کر تو بڑے بڑے سیاستدانوں کا پروٹوکول شرما گیا تھا۔ ہمارے اداروں کے سربراہان اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کر کے سیاستدانوں کو لگام لگانے کی کوششوں میں آج بھی مصروف ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ منصفین سیاستدانوں کو غلط ثابت کرنے اور ان کی کردار کشی میں مصروف ہوگئے اور معاشرہ انصاف کے لئے پلکنے لگا۔ اداروں کے اس تصادم اور بے نظمی سے جہاں عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا تو وہیں ملک کی جمہوریت کا بھی جنازہ نکل گیا۔

ملک کے نامور وکلا سیاستدانوں کے ہائی پروفائل کیسز کو بھگتانے میں مصروف ہوگئے اور عدالت کے دروازے سیاستدانوں کو پھانسی دلوانے کے لئے کھٹکھٹائے جانے لگے تو غریب عوام کی انصاف کی دھائی اس شور میں دب کر رہ گئی۔ ملک کے منتخب نمائندوں کو تذلیل اور رسوائی کا سامنا کرتا دیکھ کر غریب انسان کو انصاف ملنے کی امید ختم ہوتی نظر آتی ہے۔

خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک کی جمہوریت اپنے باسیوں کو امن و امان تحفظ و انصاف اور دو وقت کی روٹی دینے سے محروم ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اس قدر بدتر ہوچکے ہیں کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کے کاروبار بند ہوچکے ہیں غریب کا چولہا ٹھنڈا ہوگیا، مزدور طبقہ اپنے اہل خانہ کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے محروم ہوگیا اور معاشرے میں درندگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری ختم ہوچکی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ معاشرہ مایوسی کا شکار ہے اور فی الفور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی. ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے منتخب نمائندے اپنی بقا کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی نمائندے منتخب تو عوام کے ووٹ سے ہوتے ہیں لیکن عوام کی ترقی کے اختیارات ہوتے ہوئے بھی وہ ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے جائز کاموں کو بھی اعلیٰ فرمان کی نذر کردیا جاتا ہے اور ملکی ترقی کے کاموں میں ان کا کردار مشکوک کر دیا جاتا ہے۔

مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملکی ترقی میں رکاوٹ اور موجودہ حالات کی وجہ صرف جمہوری حکومتیں نہیں ہیں بلکہ جمہوریت کے غیر مستحکم ہونے میں ہر ادارے کا بالعموم اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ ساتھ سابقہ چیف جسٹس چودھری افتخار اور ثاقب نثار جیسے صاحبان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اگر ملک کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو ملک کی لولی لنگڑی اور لاچار جمہوریت کو مزید کمزور ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ملک میں آزاد جمہوریت کا استحکام عوام کی ترقی کا پیشِ خیمہ ہے۔

جمہوریت کو آزادی سے پھلنے پھولنے کی اجازت دی جائے تو اس کا تناور اور گھنا درخت ملک کی عوام کو ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرسکتا ہے اور یہ سب ناممکن نہیں ہے بشرطیکہ اس عمل کو اپنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments