اے صحافت! تیرے انجام پہ رونا آیا


گلی محلے میں خوانچہ فروشوں اور سبزی بیچنے والوں کے علاوہ چھان بورا لینے والوں کی آوازیں لگتی تو آپ سب نے سنی ہوں گی لیکن آج کے دور جدید میں سوشل میڈیا پر بھی کچھ آوازیں لگتی ہیں۔ ایسی ہی ایک آواز واٹس ایپ پرکچھ یوں ہم سے مخاطب ہوئی۔ نیا منجن لے لو! سلیمانی ٹوپی جیسا منجن لے لو! ، ارے میاں! آپ کون ہیں؟ میں بیوپاری ہوں جناب : کیا بیچتے ہیں؟ ایک نیا منجن مارکیٹ میں آیا ہے جناب! وہی بیچ رہا ہوں، یہ منجن عوا م میں دھڑا دھڑ بک رہا ہے، ارے بھائی!

ہمیں بھی پتہ چلے کون سا منجن ہے جس کا ہمیں علم ہی نہیں۔ جناب یہ وہ منجن ہے جس کے استعمال سے ہر بندہ آپ کا تابعدار بن جائے گا، پولیس والے آپ سے کنی کترائیں گے، تمام دفاتر میں آپ کی عزت و مرتبت میں اضافہ ہو جائے گا۔ آپ کا ہر جائز، ناجائز کام چٹکی بجاتے ہو جائے گا۔ واہ! یہ تو بہت عمدہ چیز ہے، اس کی قیمت کیا ہو گی؟ جناب! یہ ہے صحافتی کارڈ منجن! ، اس کی قیمت کوئی خاص نہیں۔ آپ کو ہر ماہ کچھ اخبارات فروخت کرنے ہوں گے یا انٹر نیٹ اخراجات کی مد میں ہمیں 500 روپے ماہانہ ادا کرنے ہوں گے۔

یہ ہے نیا میڈیا کا انداز، جس میں نہ کوئی خرچہ اور نہ کوئی تنخواہ، آپ نے نہ صرف ہزار یا دو ہزار روپے پریس کارڈ کے نام پر خرچ کرنے ہیں اس کے بعداگر آپ تھوڑی سی جرات کا مظاہرہ کریں تو اس کارڈ کے ذریعے نہ صرف خود کما سکتے ہیں بلکہ اپنے ادارے کو بھی بزنس کے نام پر اپنی نیک کمائی کا کچھ حصہ بطور معاوضہ بھیج سکتے ہیں۔ اس دھندے میں کسی بھی صحافی کا تعلیم یافتہ یا پروفیشنل ہونا ضروری نہیں، صرف نمائندہ صحافی کا شناختی کارڈ ہونا لازمی، تعلیم کی کوئی شرط نہیں اور نہ ہی کوئی تجربہ لازمی ہے۔

جیسے ہی کسی بھی نو آموز صحافی کے ہاتھ میں کسی ویب یا یو ٹیوب چینل کا مائیک اور لوگو ہاتھ آتا ہے وہ لفظ ”مبینہ“ کا سہارا لے کر کسی بھی شریف آدمی کی نہ صرف عزت اچھال سکتا ہے بلکہ کسی بھی کاروباری شخص کے بزنس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے اور اسی بنا پر اکثر کاروباری شخصیات نے بھی یا تو میڈیا کارڈز لے رکھے ہیں یا پھر اپنا میڈیا ہاؤس کھول کر خود بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی ایک بڑے شہر کے جوا خانے کے مالک نے پولیس اور صحافیوں کے ڈر سے اپنا میڈیا ہاؤ س کھول رکھا ہے اور اب خود پولیس اور صحافیوں سے منتھلی لے رہا ہے۔

پاکستان میں ریاست کے تینوں ستونوں  نے اپنی بنیاد مضبوط کی ہو یا نہ کی ہو لیکن ریاست کا چوتھاستون صحافت تنزلی کی ان گہرائیوں کو چھو چکا ہے جس کا تصور بھی محال ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کی بے لگام آزادی ہے۔ بڑے بڑے بزنس ٹائی کون نے جہاں اپنی جائیدادوں کو محفوظ کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ان میں سے ایک کار گر ترکیب ایک ایسے میڈیا ہاؤس کی چھتر چھایا میں پناہ لینا بھی شامل ہے جس کا اپنا الیکٹرانک چینل اور اخبار بھی ہو لیکن کچھ کرپٹ عناصر نے ایک اور حربہ آزمایا کہ کوئی بھی چھوٹے موٹے اخبار کی ڈیکلریشن لے کر دونوں ہاتھوں سے معصوم اور سادہ لوح عوام کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر بات ادھر تک رہتی تو اچھا تھا لیکن جیسے ہی یو ٹیوب اور گوگل ایڈ سینس کا دور آیا تو پاکستان کاہل عوام نے گھر بیٹھے پیسہ بنانے کا ایک اور طریقہ ایجاد کر لیا کہ کسی بھی مظلوم مدعی سے چند پیسے بٹور کر اس کی ویڈیو یو ٹیوب پہ اپ لوڈ کر دی جاتی ہے اور واٹس ایپ گروپوں میں وہ ویڈیو کالنک وائرل کر دیا جاتا ہے تاکہ ارباب اختیار نہ صرف خوف زدہ ہو جائیں بلکہ کچھ ایکشن لینے پر بھی مجبور ہو جائیں، اس کے ساتھ ساتھ یو ٹیوب پہ اگر آپ کی سبکسرپشن بڑھ جاتی ہیں تو وہاں سے بھی آپ اچھی خاصی رقم کما سکتے ہیں۔

ماضی میں ہمیں چار آنے کی جنتری میں ایسے اشتہار عام مل جاتے تھے جس میں گھر بیٹھے لاکھوں کمانے کے طریقے بتائے جاتے تھے لیکن جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا نو سر باز عناصر کے ہتھکنڈے بھی تبدیل ہوتے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھر بیٹھے لاکھوں کمانے کا آسان ذریعہ یوٹیوب اور ویب چینل عوام میں متعارف ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو حسن نثار، مبشر لقمان اور جاوید چوہدری جیسے عظیم اور جغادری صحافی بھی اپنے اپنے ویب چینل کے ذریعے اتنی دولت کما رہے ہیں جس کا شمار حکومت وقت کو کرنا ہو گا تاکہ عوام کا خون چوسنے کی بجائے ان بڑے مگر مچھوں کی آمدنی سے بھی ملکی خزانے کا پیٹ بھرا جا سکے۔ صرف مجھ ناچیز کے مشاہدے کے مطابق ضلع بہاولپور میں درجنوں ایسے آن لائن نیوز چینل ہیں جو پیمرا کی پالیسی پر پورا نہیں اترتے اور نہ ہی کسی بڑے ادارے سے رجسٹرڈ ہیں صرف دیہی علاقوں میں سادہ لوح لڑکوں اور صحافت کا جنون رکھنے والے نوجوان ہی ان کا شکار بن رہے ہیں۔

صحافت کی زبان میں اعزازی اخباری نمائندہ ایک عام اصطلاح ہے، اس نمائندے کو اعزازی ہونے کا شرف اس لئے حاصل ہوتا ہے تاکہ ادارہ اس کو ماہانہ تنخواہ اور بقیہ سہولیات دینے کا پابند نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے سالانہ بزنس کے نام پہ ہزاروں یا لاکھوں روپے بٹور سکے۔ کہتے ہیں دروغ بر گردن راوی ایک مشہور اخبار کے بڑے صاحب کو کسی اعزازی نمائندے نے کہا کہ میں شریف آدمی ہوں میں اشتہارات کی مد میں اتنی رقم جمع نہیں کر سکتا تو صاحب نے جواب دیا ”شریف آدمی کا اس فیلڈ میں کیا کام، آپ گھر جا کر آرام کریں اور کوئی کام ڈھونڈیں“ یعنی اگر آپ غلطی سے تعلیمی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکے تو اس پیارے پاکستان میں آپ کے لئے بہت سے فیلڈ ایسے ہیں جہاں آپ طبع آزمائی کر سکتے ہیں جن میں ایک سیاست ہے اور صحافت ہے، جیسے ہی کوئی بھی فرد اس میدان میں داخل ہوتا ہے، اس کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

اگر وہ زمانے کے انداز جانتا ہے اور کچھ مقامی و ضلعی پولیس و انتظامی افسران کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے کسی قبضہ مافیا، ملاوٹ مافیا سے کوئی پلاٹ یامحنتانہ حاصل کر کے اپنے خواب پورے کر سکتا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یا میں نے اڑتی اڑتی خبریں سنی ہیں کہ موجودہ حکومت ای۔ کامرس پالیسی کے نام پر اسی طرح کے یو ٹیوب اور سیب چینلز کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کر چکی ہیں اگر ان خبروں میں کوئی صداقت ہے تو شاید جلد ہی تمام غیر رجسٹرڈ ویب ٹی وی، یو ٹیوب نیوز، فیس بک لائیو نیوز اور ویب نیوز چینلوں کی رجسٹریشن کے نام پر خزانے میں کافی رقوم جمع ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ جب نام نہاد اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے چینلز پر پیمرا کے قوانین اور سنسر پالیسی نافذ العمل ہو گی تو عوام کو جھوٹ اور نفرت کی منڈی یعنی سوشل میڈیا سے بھی امید افزاخبریں سننے کو ملیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments