14 فروری: ہم نے محبت کو کیسا جانا؟


“یہ محبت کیا ہوتی ہے؟”

ہم گھر کے آنگن میں کھیل رہے تھے جب آپا نے آواز دے کے بلایا اور سوال داغ دیا۔

ہم سوچ میں گم ہو گئے۔ کم سنی تھی مگر کتابوں اور فلموں کی لت پڑ چکی تھی۔بات کہنے میں ہچکچاہٹ بھی نہیں تھی، سو پٹ سے بولے،

” وہی لڑکی لڑکے کی محبت “

آپا نے یہ سنتے ہی خشمگیں آنکھوں سے گھورا اور ہماری ذہنیت کا ماتم کرتے ہوئے کہا، ” کیوں کیا تمہیں اماں ابا سے محبت نہیں ہے؟ مجھ سے، رضا اور نینو کےبارے میں کیا خیال ہے؟ “

ہم پہ مانو گھڑوں پانی پڑ گیا اور پھنسی ہوئی آواز میں کہا ” ہے، بہت ہے “

“بس پھر اپنے دماغ کو صاف رکھو، الٹے سیدھے خیال مت سوچا کرو”

لیجیےصاحب اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے۔ آپا کی سرزنش نے “سوسنار کی اور ایک لوہار کی” کا کام کیا اور جس عمر میں لوگ چوری چوری ادھرادھر دیکھتے ہیں، رقعے ارسال کرتے ہیں ہم نے ایسا دبنگ انداز اپنایا کہ کوئی کچھ کہنے سے پہلے سوچ کے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا۔

میڈیکل کالج پہنچے، ہوسٹل میں قیام ہوا۔ شام ہوتے ہی لڑکیوں کے مختلف کزنز آ دھمکتے۔ ہم اور ہم جیسے کئی اور بالکونی سے نظارہ کرتے اور جملے کستے۔محبت کے رشتے بنتے، ٹوٹتے، آنسو بہتے، اور زندگی رواں دواں چلتی رہتی۔ ہمیں یہ سب ایک مذاق محسوس ہوتا۔ محبت، کیسی محبت؟ یہ تو بس وقتی جذبات کاجوار بھاٹا ہے۔

زندگی آگے بڑھی۔ ماضی میں جھانکتے تو آپا کا پڑھایا ہوا سبق یاد آ جاتا، ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل جاتی۔ کبھی کبھی دل میں یہ خیال ضرور آتا کہ آپا نے اماں ابا کے درمیان موجود محبت کا تو ذکر ہی نہیں کیا جس کے ہم عینی شاہد تھے۔ مرد و عورت کے درمیان موجود وہ محبت جس کا اولین مظہر آدم و حوا ٹھہرے کہ خوشنودئ یار کے لئے جنت سے بھی نکلنا گوارا کر لیا۔ آہستہ آہستہ سمجھ آئی کہ دنیا کا اولین رشتہ مرد و عورت کا تعلق ہے اور دنیا کے تمام رشتے اسی سے جنم لیتے ہیں۔ یہی بنیادی اکائی ہے۔

آج ویلنٹائن ڈے پہ برسوں بعد آپا کا کیا ہوا سوال ہم اپنے آپ سے پھر سے پوچھنا چاہتے ہیں،

” کیا ہے محبت ؟”

جسمانی آسودگی کا ایک مظہر جو اوائل عمری میں امڈتے جذبات کے تحت نوعمروں کو پاگل بناتا ہے یا ذہنی وابستگی کا وہ احساس جو دو روحوں کو ایک دوسرے کا ساتھی بناتا ہے۔

زندگی کی کھٹنائیوں میں ایک دوسرے کو سہارا دیے رکھنا جو منزل تک پہنچنا آسان کر دیتا ہے، یا ریل کی دو پٹڑیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلنا جو بیگانگی کا زہر جسم وجاں میں گھول دیتا ہے۔

ہمیں کہنے دیجئے کہ محبت نہ ہو تو جسمانی تقاضے بے روح لذت کا مظاہر ہوا کرتے ہیں۔ کسی اور کا دھڑکتا دل اس وقت تک نس نس میں سنسناہٹ نہیں دوڑاتا جب تک محبت کی کونپل نہ کھلی ہو۔ لال گلاب خوشبو سے خالی اورالفت بھرے کارڈ سادہ دکھائی دیتےجب تک محبت کے سر شامل حال نہ ہوں۔

تو پھر محبت ہے کیا آخر ؟

ہمارے نزدیک کسی کی آنکھ میں جوت جلا دینا محبت ہے، کسی دوسرے کی رضا کے لئے اپنے آپ کو دار پہ چڑھا دینا محبت ہے۔ کسی کی عزت کو مقدم جاننامحبت ہے، کسی کے لئے حق پہ ڈٹ جانا محبت ہے۔ کسی کے لئے اپنی خواہشات کو سولی پہ چڑھا دینا محبت ہے، کسی کے لئے اپنا آپ وار دینا محبت ہے۔ طوفانوں میں کسی کا ہاتھ پکڑ کے پار اتر جانا محبت ہے، الفاظ اور وقت کی کڑواہٹ کو محب پہ انڈیلنے کی بجائے خود یہ زہر پی جانا محبت ہے۔ کسی کی انا کو ٹھیس نہ پہنچانے کے لئے اپنی عمر داؤ پہ لگا دینا محبت ہے، سود وزیاں سے بےنیاز ہو کے جیے جانا محبت ہے۔

محبت روح کو بالیدگی بخشتا یقین ہے۔ محبت چہرے پہ عارض گلاب کھلاتا سپردگی کا احساس ہے۔ محبت تیز دھوپ میں نکلی ہوئی بدلی کی چھاؤں ہے۔ محبت برسات کی رم جھم ہے، محبت جذب و وفا ہے۔ محبت جسم و جاں کو سیراب کرتا تاحد نظر دکھتا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔

یہ بھی جان لیجیے کہ دل کی زمین پہ لگے ہوئے محبت کے پودے کو سینچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوا کرتی۔ اس بے بہا خزانے کا قدردان ہر کوئی نہیں ہوا کرتا کہ جوہری کی آنکھ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔

اس چھوئی موئی کے پودے کو شک و بدگمانی کی آندھی، زہر میں بجھے ہوئےالفاظ، بے اعتنائی، بد اعتمادی، طعن وتشنیع، بے نیازی اور تقابل جلا کے راکھ کر دیا کرتے ہیں۔ سنگ باری ذات کو کرچی کرچی کر دیا کرتی ہے۔ محبت بھرا دل اور احساس بھری روح قطرہ قطرہ اس زہر ہلاہل کو پی تو لیتے ہیں لیکن پھر دل کی سنگلاخ زمین پہ وہ پھول اپنی موت آپ مر جایا کرتا ہے۔

آج کے دن کی مناسبت سے اگر دل کی دھڑکن کسی کے نام سے بے تاب ہوتی ہو تو پھول و کارڈ دینے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن خیال رہے کہ من کی دنیا میں جو پھول کھلائے جا رہے ہیں ان کی آبیاری کے لئے ایک دن نہیں بلکہ اک عمر کی تپسیا چاہیے۔

کارڈ پہ کچھ لکھنا ہو تو سلیم الرحمن کے موتی مستعار لے لیجئے

ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے، اس نئے دن میں اپنے لئے، ہم بناتے ہیں گھر؛

جس میں فرش اور چھت کی جگہ جیسے چھائیں بچھیں جھٹپٹے

جس میں کھلنے کو ہوں جا بجا باد و باراں کے محراب و در

یہ دعا ہے کہ جب تک رہیں ہم یہاں روشنی میں بہم پاس آئے نہ کوئی ملال

چھاؤں بھی تھوڑی تھوڑی رہے، دھوپ بھی ہو کہیں پہ نہ کم؛

یوں ہی دنیا میں چلتی رہے ہر طرف یہ ہواے وصال۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments