ویلنٹائین ڈے اور مفتی کفایت اللہ


آج کا دن تو ویسے بھی ہمارے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ ہم وہ بدنصیب ہیں جو کافی عرصہ سے نا کسی کی زلفوں کی کنگی بنے نا ہی کسی کی جھیل سی آنکھوں میں ڈبکی لگانے کا موقعہ ملا، روزگار کی تلاش نے کچھ سوچنے جیسا بھی نہیں چھوڑا۔ تو آج کا دن ہمارے لیے بھی سوچو تو سیاہ دن ہی ہے۔ خیر آگے کی بات کرتا ہوں۔

صبح جیسے ہی گھر سے نکلا تو ایک دوست کا کوئی کام تھا تو مجھے لے گیا۔ ہم ایک گاؤں میں پہنچے جہاں مہمان خانہ بنا تھا۔ ایک جھونپڑی تھی جس کی دیواریں کچی اور چھت لکڑیوں اور تنکوں سے بنی تھی دیوار پر مفتی کفایت اللہ کی تصویر لگی تھی۔ جیسے ہی کچھ دیر بیٹھے تو ایک بندہ جو کافی موٹا چوڑا تھا۔ لمبی داڑھی، سر پر فضل الرحمن جیسا عمامہ پہنے آگیا۔ اس دوست کا جو کام تھا اس کی بات ہوئی اور گھنٹے کے انتظار کا کہہ کر ہمیں بٹھا لیا۔ میرا تعارف پوچھا اور کہیں سے 14 فروری کا ذکر چل نکلا۔ اتنے میں دو چار مسٹنڈے اور نکل آئے یوں جے یو آئی کے عالموں کے گھیرے میں ہم دو جن تھے۔

اس جناب نے نا آو دیکھا نا تاؤ بولا کہ بھئی آج ویلنٹائین ڈے ہے اور ٹی وی پر بھی دکھا رہے تھے۔ کفار نے ایسے دن بنا کر ہم اہل ایمان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یوں وہ ہماری طرف مخاطب ہوکر بولا، بھلا بے حیائی کا بھی دن ہوتا ہے کیا؟ کیوں حضور؟ میرا دوست میری طرف دیکھنے لگا اور میں اس کی طرف۔ ویلنٹائین ڈے کے حق میں کوئی بھی دلیل دینا اس وقت موت کو دعوت دینا تھا۔ میں نے بھی ہاں میں سر ہلا کر کہاں کہ علامہ صاحب آپ درست فرما رہے ہیں۔ دل میں سوچا واقعی سچ ہی تو فرما رہا ہے، بے حیائی تو ہر دن کی جا سکتی ہے۔ جیسے ہمارے ملک میں ایسے معتقدین کے ہوتے ہوئے ہر روز ایک نئی اور عجیب غریب بے حیائی نمودار ہوتی ہے۔

فرمایہ۔ ویلنٹائین ڈے ایسا گھٹیا تہوار ہے جس کو منانے والے اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کے شکار مغربی لوگ بدتہذیبی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان بدتہذیب لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ تہذیب و تمدن کیا ہے۔ ان مغربی ممالک نے ایک ایسا دن بنا دیا ہے جس دن آپ سرعام بی حیائی کر سکتے ہیں۔ حضرات کے سب دلائل پر جب غور فکر کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ دراصل بے حیائی کی چند اقسام ہیں جو کہ تقریبا مغربی لوگوں میں پائی جاتی ہیں اور بے حیائی کوئی مسئلا نہیں ساری بے حیائی چھپ کر کی جاتی ہے۔ جیسے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ اپنے گناہ کے گواہ نا بناؤ۔ وہ قیامت کے دن آپ کر گواہی دیں گے۔ اتنے وقت میں جناب بولتے رہے اور ہم اسے سزا سمجھ کر بھگتتے رہے

دیکھتے ہی دیکھتے جناب نے مفتی کفایت اللہ کی تصویر کو دیکھ کر بولا کہ سبحان اللہ ایسے مجاہدین کی وجہ سے ملک اور پارلیمانی نظام چل رہا ہے اور اگر یہ نا ہوں تو یہودی ایجنٹ عمران خان اس ملک کو اسرائیل کو بیچ دے۔ ویسے بھی سب فیصلے اب بھی یہودیوں کے کہنے پر ہوتے ہیں۔ جتنا وقت وہاں بیٹھے تھے ہم ہاں میں سر ہلاتے رہے۔ وہاں سے نکلے تو جان میں جان آئی۔ اور باتیں ذہن میں گھومتی رہیں۔

میں نے سرسری نظر ماضی قریب کے کچھ واقعات پر ڈالی اور سوچا کہ کیا ہی برے لوگ ہیں اہل مغرب، ہم سے ہی کوئی تربیت لے لیں۔ آپ مغربی لوگ بھی کیسے لوگ ہیں نا آپ ہمارے مذہبی ممولوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں نا ہماری روشن خیالی کا۔ کچھ عرصہ پہلے کالی پگڑی پہنا یہی عالم جس کی تصویر اس جھونپڑی میں لگی تھی اچانک ٹیلیوژن پروگرامز میں نمودار ہوتا ہے اور چھا جاتا ہے۔ کچھ دن میں مولانا فضل الرحمن صاحب کا آزادی مارچ شروع ہوجاتا ہے اور اس آزادی کی تحریک میں مفتی کفایت اللہ بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مولانا صاحب کے لب لہجے سے لگتا ہے کہ مولانا صاحب نیم خواندہ ہیں اور اپنی شعلہ بیانی اور بنا سوچے سمجھے کی باتوں سے اچانک مشہوری پکڑ لیتے ہیں اور مذہبی تو خیر روشن خیالی طبقوں پہ اپنا ڈیرہ جما لیتے ہیں اور ان کی فیس بک والز کی ذینت بن جاتے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے مایوسی میں لپٹے طبقات مولانا فضل الرحمن صاحب کو اپنا نجات دہندہ مان لیتے ہیں یہ روشن خیال طبقوں کی بات کر رہا ہوں جو کہ شاید یہ سمجھتے تھے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب عمرانی حکومت گرا کر سیکولرازم اور سوشلزم کی نعرہ بلند کریں گے محکوم وہ مجبور طبقات کی نمائندگی ہوگی اس حساب سے مفتی کفایت اللہ صاحب ہر دل عزیز بن گئے اور اس سے بھی کافی امیدیں وابستہ ہو گئیں۔ کچھ دن بعد دھرنا بنا نتیجہ ختم ہو گیا۔ پتا نہیں کس نے جمہور کے علمبردار مولانا کو حکومت گرانے کی تسلی کرائی اور علامہ صاحب اپنا بوریا بستر باندھ کر یہ جا اور وہ جا ہو گیا۔ لیکن یہ گتھی سلجھنا ابھی تک باقی ہے۔

دھرنا ختم ہو گیا۔ کچھ نہیں ہوا۔ اچانک چیف صاحب کی توسیع کا معاملہ سامنے آیا، اور سیٹی بجی۔ ملک کے تمام چی گویرا، نیلسن منڈیلا، ماوزے تنگ، گاندھی، ہوچی منہ، اور دور حاضر کی بے نظیریں اور بھٹو مانے جانے والے سب ایک ہی صف میں محمود ایاز کے ساتھ کھڑے۔ مولانا بھی ادہر ادہر دیکھ کر چپ ہو گئے۔ اچانک انقلاب جاتا رہا اور قوم دیکھتی رہی۔ یہ وہ انقلاب کے دیے تھے جو روشن ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اچانک ان کے اہنے ذہنی بیمار عقیدت مندوں کے علاوہ روشن خیال حضرات اپنی امید کا بستر لپیٹ کر اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے اور کسی نئے انقلاب کے سورج طلوع ہونے تک لمبی تان کر سو گئے۔

مفتی کفایت اللہ دو باتوں کی وجہ سے کچھ عرصے سے زبان زد عام رہے ہیں۔ انہوں نے وکی لیکس خبر چلانے والے Julian Paul Assange کو وکی کا نام دے کر جمائما گولڈ سمتھ کا کزن بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ بات بنے نا بنے مطلب عمران خان کی مخالفت میں کسی حد تک بھی جانا تھا اور کسی کی مخالفت میں کئی سال سے طلاق لے کر بیٹھی برطانوی بڑے گھرانے کی عورت جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے معاملات سے کوئی تعلق نہیں اس کو گھسیٹنا ہے یہ ہماری مشرقی اخلاقیات ہیں۔ اہل مغرب، ویلنٹائین ڈے منانے والے کیا جانیں کہ اخلاقیات کیا ہوتی ہیں۔

میں نے دیکھا ہے کہ اخلاقیات کا جھوٹ، کرپشن، بدعنوانی، الزام تراشی، توہم پرستی اور ظالم قاتل کی صرف فقہی مماثلت کی وجہ سے پشت پناہی کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اخلاقیات عورت کے گھٹنوں سے اس کے گلے کے بیچ کہیں ایک دو جگہ پائی جاتی ہے۔ کپڑے کیسے پہنچنے چاہیئں۔ کسی عورت کو اپنا شریک حیات چننے کا کوئی اختیار نہیں البتہ وہ لڑکی ہندو نا ہو اور کورٹ میریج کے ذریعے کسی مسلمان سے بیاہ کر کہ ایمان کی روشنی سے فیض یاب نا ہوئی ہو۔ اگر کوئی عورت پڑہنے، لکھنے، جاب کرنے، اور اپنی زندگی کے اہم فیصلے کا حق محفوظ کرنے کے لئے بات کرتی ہے کسی مخصوص دن پر اپنے ہاتھ میں پھول پکڑتی ہے تو نہایت بدکردار اور با اخلاق ہے اسے اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

مانسہرہ میں کچھ عرصہ پہلے اسی مجاہد نے اپنے ساتھیوں ساتھ 10 برس کے معصوم کو 100 بار جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے قاری شمس الدین کی حمایت میں مانسہرہ کی مقامی عدالت پر حملہ کر دیا تھا، صرف اس وجہ سے کہ وہ زیادتی کا مرتکب جے یو آئی کا عالم تھا۔ اور یہ وہ مجاہد ہے جس کی وجہ سے یہودیوں کی سازشیں رکی ہوئی ہیں۔ کبھی کبار سوچتا ہوں کہ یہودی کیوں ہمارے خلاف سازشیں کریں گے؟ کیا وہ اتنے ویلے ہیں؟ جے یو آئی (ف) کے مرکزی امیر مفتی کفایت اللہ کی علاقہ میں دھاک اور بدمعاشی ہے جس کی وجہ سے عدالت کی کوئی خبر میڈیا کو رپورٹ نہیں کی گئی۔ کفایت اللہ کی جانب سے ملزم قاری شمس الدین کو بچانے کی کوشش میں عدالت پر حملہ کیا۔ کمرہ عدالت میں بچے نے اس بات کی تصدیق کی کہ قاری شمس الدین ہی نے اس سے زیادتی کی اور اس پر تشدد کیا۔

اس کے بعد بچے کے والدین پر صلح کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ جب کہ مفتی کفایت اللہ کی جانب سے دھمکیاں دینے کا بھی انکشاف ہوا۔ مفتی اور ان کے ساتھی نے عدالت کے باہر بچے کے والدین کو تصفیہ نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔ جب کہ انہوں نے اس حوالے سے رقم کی پیشکش بھی کی لیکن والدین نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ جب یہ باتیں ذہن میں آئیں تو سوچا کہ کاش اس جھونپڑی کی چھت سے ایک ڈنڈا نکال کر اس بندے کا سر پھاڑ سکتا۔ لیکن مجبور تھا سر بچا کر بھاگ نکلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments