آزاد کشمیر میں سیاست کے خدوخال


آزاد کشمیر میں سیاسی ایکٹیوازم بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس میں وفاق پرست جماعتوں کے ساتھ قوم پرست اور پھر برادریوں کی بنیاد پر سیاست کو اپنی پہچان بنانے کا رواج ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی جگہ بنانے کے لئے بڑے ناموں یا برادریوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آزاد کشمیر میں موجود سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائی جائے تو اقتدار میں موجود جماعت مسلم لیگ ن پر راجپوت چھاپ نظر آتی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی پر گجر برادری کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کو سدھنوں کی جماعت کے طور پر پہچان ملی۔ مسلم کانفرنس پر ایک عرصہ سے عباسی خاندان کی چھاپ موجود ہے اور جب تبدیلی کے نام پر قائم ہونے والی جماعت تحریک انصاف نے آزاد کشمیر میں اپنے قدم جمانے کا سوچا تو انہیں بھی کسی بڑے نام کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ پہلے پہل تحریک انصاف کو کسی غیر معروف نام کے ساتھ آزاد کشمیر میں پذیرائی نہیں مل سکی۔ یوں روایتی سیاست میں آنے کے لئے تبدیلی نے بیرسٹر سلطان محمود کا انتخاب کیا شاید اس کی وجہ وہ ایک برادری کے لیڈر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ خیر اس انتخاب نے جہاں تبدیلی کا پول کھول دیا وہیں یہ بھی واضح کروایا کہ آزاد کشمیر میں تعلیمی تناسب سب سے زیادہ ہونے اور سیاسی فعالیت کے باوجود ہم مخصوص دائرے میں جکڑے جا چکے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے یا اس سے باہر نکل کر ہمیں اپنی سیاست ختم ہوتی نظر آتی ہے۔

پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی اسمبلی میں ہر بار پرانے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں بس بنچز تبدیل ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو ہمیشہ حکومتی بنچز کی رونق رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ پانچ سال بعد اپنی جماعت تبدیل کر لیتے ہیں اور اقتدار میں آنے والی جماعت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کو تحریک انصاف آزاد کشمیر کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو مہذب زبان میں الیکٹیبلز جب کہ مقامی زبان میں لوٹا کہتے ہیں۔

2021 آزادکشمیر میں انتخابات کا سال ہے اور انتخابات سے قبل ہر سیاسی جماعت میں تبدیلی ہوتی نظر آئے گی اور تبدیلی کی حامی جماعت میں وہ ساری تبدیلی فٹ ہو جائے گی جو دوسری جماعتوں کو چھوڑ دے گی کیونکہ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ جو جماعت مرکز میں برسراقتدار ہو تی ہے وہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت بناتی ہے۔ اسی تاثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد کشمیر پی ٹی آئی کے رہنما اقتدار کی نوید سنا رہے ہیں اور ساتھ ہی آئندہ حاصل ہونے والے عہدوں پر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہیں اس کی تازہ ترین مثال بیرسٹر سلطان کے بعد ماجد خان کا تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری بننا واضح پیغام ہے کہ جماعت کو کس کی ضرورت ہے۔ پھر سکندر حیات کا عمران خان سے ملاقات کے بعد کئی سوالات جنم لیتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں مسلم لیگ پر عتاب آتے ہی راجا فاروق حیدر کو بار بار مسلم کانفرنس کی یاد ستانے لگی جس کا وہ کئی مرتبہ اظہار بھی کر چکے ہیں۔

لوٹا کریسی کے ساتھ آزاد کشمیر کے سیاست دان اپنے مفاد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں سیاست دانوں کے بیانات پر نظر دوڑائیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کسی کو قوم کے مفاد سے کوئی سروکار نہیں بس اپنی سیاست زندہ رکھنے اور مرکز کو بلیک میل کرنے کے لئے ایسے بیانات دے دیتے ہیں جن سے عوام میں اشتعال پیدا ہو اور ان کا اقتدار یا سیاسی پوزیشن برقرار رہے۔ ایسے چند بیانات قارئین کی نظروں سے گزرے ہوں گے جو مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں۔

گزشتہ عرصے میں فاروق حیدر نے شوشہ چھوڑا کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے آخری وزیراعظم ہیں۔ شاید ایسا بیان تب سامنے آتا ہے جب فاروق حیدر کو کرسی جانے کا خطرے محسوس ہو تب وہ اس طرح کے شوشے کا سہارا لے کر عوامی جذبات ابھارتے ہیں اور پاکستان کو باور کرواتے ہیں کہ اگر کچھ کرنے کی کوشش کی گئی تو میرے پیچھے عوام ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کیا پیغام جائے گا۔

اسی طرح کئی سیاستدانوں کی جانب سے یہ بات پھیلائی گئی کہ آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں کو پاکستان کے مختلف اضلاع کا حصہ بنایا جائے گا اور اس کے ساتھ سکندر حیات کا یہ کہنا کہ ”اگر آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے تو وہ سب سے پہلے اس کی حمایت کریں گے“ پاکستان کی توجہ حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح بیرسٹر سلطان ایک عرصے تک آزاد کشمیر با اختیار بنانے کی بات کرتے رہے لیکن تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد جب وفاقی حکومت نے مخالفت کی تو بیرسٹر سلطان نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔

یہ سب مثالیں دینے اور باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کب تک اب سیاست دانوں جو معمولی سے مفاد کے لئے رستہ بدلنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ان کا آلہ کار بنتے رہیں گے۔ سب سے زیادہ پڑھا لکھا خطہ ہونے کے باوجود اپنی برادریوں کو مقدم جان کر عوامی مفادات کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔

ہم کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن جب اپنی سیاسی جماعت، برادری یا پسندیدہ شخصیت کی بات آتی ہے تو اپنی ساری توانیاں اس کی تعریفوں اور اسے اچھا ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ جب ہم پسند ناپسند سے باہر نکل کر اجتماعی مفاد کی سوچ نہیں اپنائیں گے تب تک ہماری حالت میں کوئی بدلاؤ نہیں آنے والا۔

علاقے کی بہتری کے لئے ہمیں ذاتی مفادات، برادریوں اور پسند و ناپسند سے باہر نکلنا ہو گا اسی سے ہمارے شعور اور پڑھا لکھا ہونے کا پتا چلے گا۔ وگرنہ ہم لوٹوں کے پیچھے ہی اپنی زندگی کی توانائیاں صرف کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments