پاکستانی سیاست: شق 89 کی زد میں


پاکستانی سیاست مکمل بحران کا شکار ہے جس کا براہ راست اثر معیشت پر مرتب ہورہا ہے۔ مہنگائی میں کمر توڑ اضافہ اور حکومت کی طرف سے بقدر اشک بلبل پندرہ ارب روپے کی سبسڈی دینے کا منصوبہ دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ معاملات پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔

 ہر شخص خواہ وہ حکومت کا حصہ ہو یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر حکومت کی کارکردگی کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہو، صرف اپنےسیاسی اہداف کے لئے راستہ ہموار رکھنے کی کوشش میں ہے۔ لگتا ہے کہ اقتدار میں حصہ پانے کی لوٹ سیل لگی ہے۔ کچھ کو موقع مل چکا ہے اور کنارے پر بیٹھے لوگ  اس تفہیم میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ اگر ’ایسے لوگوں ‘ کو موقع مل سکتا ہے تو میرا بھی حق ہے کہ حسب توفیق ’سازش‘ کا حصہ بن جاؤں۔ کیوں کہ یہ سوچ بھی پاکستان کے سیاسی و سماجی مزاج میں راسخ ہوچکی ہے کہ معاملات کی خرابی کی اصل وجہ دوسرے ہیں۔ ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ اگر قسمت یاوری کرے اور اسے پوزیشن میں آنے کا ایک موقع مل جائے تو وہ پلک جھپکتے حالات تبدیل کرسکتا ہے۔ صرف اپوزیشن لیڈر ہی اس حرص میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ حکومتی صفوں اور اس کے حلیفوں میں بھی ایسے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی سرگرمی اس ایک بنیادی نکتہ تک محدود ہوچکی ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے مزید اختیار یا بہتر پوزیشن حاصل کی جائے اور باہر رہتے ہوئے دوسرے کو دھکا دے کر اس کی جگہ خود کو فائز کرنے کی خواہش و کوشش کی جائے۔

دنگل کی یہ کیفیت حکمران تحریک انصاف میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے اور اس کی حلیف پارٹیاں بھی اسی خواہش میں ہلکان ہوئی جاتی ہیں کہ کس طرح وسائل و اختیار کا زیادہ بڑا حصہ ان کی دسترس میں آجائے۔ کبھی قومی اسمبلی میں سر عام پھانسی کی قرار داد کو اس سیاسی رسہ کشی کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور کبھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ یا خیبر پختون خوا میں اختیارات کی ’مناسب تقسیم یا عدم تقسیم ‘ کے سوال پر فساد دیکھنے میں آتا ہے۔ وزیر اعظم خود کو طاقت ور رکھنے کے لئے کمزور اور بے سہارا عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لئے تیار نہیں ہیں اور پرویز الہیٰ سے لے کر فواد چوہدری یا سرور چوہدری تک ہر کس و ناکس اس دوڑ میں اپنا حصہ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کررہا ہے۔

اقتدار سے باہر اپنی باری کا انتظار کرنے والے اپنی جگہ دو طرفہ جد و جہد میں مصروف ہیں۔ کبھی خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی میں مقابلہ کی خبریں سامنے آتی ہیں اور کبھی قارئین و سامعین کی تفریح طبع کے لئے ، لندن سے آنے والے پیغامات کی توضیح و تشریح، پیامبر کی شناخت اور نیت و ارادہ کے بارے میں دھینگا مشتی کا سماں موجود ہوتا ہے۔

قصہ مختصر ہر شخص توجہ چاہتا ہے، اقتدار چاہتا ہے اور اپنے اختیار میں اضافہ چاہتا ہے۔ وزیر اعظم کو یقین ہے کہ ان کے اختیار کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ان کا ’کلہ‘ مضبوط ہے۔ اس یقین کی وجہ خود پر اعتبار کے علاوہ  اونچا اڑانے والی انہی ہواؤں کا سہارا ہے جن کی وجہ سے جنرل ضیا کے دور میں نواز شریف کا کلہ مضبوط تھا۔ فرق صرف یہ ہے یہ اعلان ضیا الحق نے خود اپنی زبان سے کیا تھا لیکن عمران خان کے معاملے میں چاہتے ہوئے بھی کھل کر اعلان کا حوصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ملک میں بہر حال ٹوٹی پھوٹی یا لنگڑی لولی جمہوریت موجود ہے اور ’خودمختار پارلیمنٹ‘ کام کررہی ہے۔ آرمی چیف یا ان کے ترجمان چاہتے ہوئے بھی یہ اعلان کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتے کہ ’عمران ہمارا بندہ ہے‘۔ دوسرے عمران خان نے اقتدار میں گزارے ڈیڑھ برس کے دوران ایسے کئی کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ عملی طور سے بھی ایسا اعلان کرنا شاید قوم کے علاوہ خاص طور سے ادارہ جاتی مفاد میں نہیں ہوگا۔

یہ صورت حال مزید کنفیوژن اور بے یقینی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ یعنی بہر طو ر ہر پل معیشت کی سانسیں کم کرنے کا اہتمام ہورہا ہے۔ فضا میں یہ سوال شدت سے موجود ہے کہ کیا عمران خان ہی ’منتخب‘ لیڈر ہیں یا نگاہ انتخاب اب نئے پنچھیوں کی تلاش میں ہے۔ ان پنچھیوں کا ایک غول آج کل لندن میں بسیرا کئے ہوئے ہے کیوں کہ ماضی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ لندن پلان بہر صورت کامیاب ہوتا ہے۔ وہاں کی مرطوب اور ٹھنڈی آب و ہوا میں معاملات طے کرنا اور کسی نتیجہ تک پہنچنا آسان ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں چوہدری نثار علی خان کا لندن جانا ایک ایسی خبر کے طور پر سنا اور پڑھاجاتا ہے جیسے ملک کو درپیش مسائل کا حل اسلام آباد میں قائم حکومت یا پارلیمنٹ کا اختیار نہیں ہے بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ لندن میں چوہدری نثار کس کس سے ملتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تو علاج کے لئے جارہا ہوں۔ خبر لانے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف ان سے ملنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لیکن سوچنے والے سوچتے ہیں کہ ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟

عمران خان کو اپنی کامرانی پر اتنا یقین ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ عزت تو اللہ کی طرف سے ملتی ہے، مخالفین جتنا کیچڑ اچھالنا چاہتے ہیں اچھالتے رہیں ۔انہیں ہرگز پرواہ نہیں ہے لیکن حکومت میڈیا اور مخالفین کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر بھی اٹھا رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نیب اور ایف آئی اے کے لمبے بازو کمزور ہونے اور ’قومی دولت لوٹ کر چور بھاگ گئے‘ کا وظیفہ ماند پڑنے کے باوجود پابندیاں عائد کرنے اور میڈیا کو تابع فرماں رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ اب سوشل میڈیا کے مواد کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون سازی کا معاملہ پیش نظر ہے۔ تمام بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں رجسٹر کروانے، اسلام آباد میں دفتر کھولنے اور حکومت کے ساتھ اپنا ڈیٹا شئیر کرنے کا پابند کرنے کے لئے ضابطے و قواعد مرتب کئے گئے ہیں ۔

ان قواعد کے تحت ان کمپنیوں کو پاکستان اور اسلام کے خلاف کسی بھی قسم کا مواد شائع کرنے سے باز رہنا ہوگا یا حکومت کی نشاندہی پراسے فوری طور سے ہٹانا ہوگا۔ مخالفین اسے اختلاف رائے کا ہر راستہ بند کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں لیکن حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایسا اقدام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ اطلاعات کی مشیر کا دعویٰ ہے کہ ان کمپنیوں کو کسی کنٹرول کے بغیر معلومات عام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری جنہیں اس وزارت سے ہٹا کر سائینس کا قلمدان سونپا گیا تھا ، بدستور دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی یا رائے کی آزادی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ تو معاشی معاملہ ہے۔ یہ کمپنیاں پاکستان سے کروڑوں ڈالر کماتی ہیں ، ان کا کچھ حساب تو ہونا چاہئے۔ یعنی حکومت کوئی پالیسی بنائے خود حکومت کے چہیتے اس کے ایک سے زیادہ فائدے بتانے کی کوشش میں خود ہی اس کی کمزوریوں اور نقائص کا سراغ بھی نکال لاتے ہیں۔ فی الوقت کسی کو یہ سوچنے کا موقع نہیں ملا کہ سوشل میڈیا کی یہ کمپنیاں حکومت کی خواہشات کے بارے میں کیا رویہ اختیار کریں گی۔ کیا ان سے بھی آزادی رائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے کسی عالمگیر ذمہ داری کی توقع کی جائے گی؟

اس بحث میں یہ ضرور واضح ہو رہا ہے کہ تنقید کے لئے خود کو پیش کرنے کے دعوے کس قدر بے بنیاد اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ان کا حال بھی ملکی معاشی پالیسیوں جیسا ہی ہے کہ فیصلہ کن ہدایات تو عالمی مالیاتی ادارے اور حکومت میں موجود ان کے ’نمائیندے‘ جاری کرتے ہیں لیکن وفاقی کابینہ 15 ارب روپے کی ’خطیر‘ گرانٹ سے ملک کے غریبوں کا منہ بند کرنے کا فیصلہ ضرور کرلیتی ہے۔ وزیر اعظم کو تنقید کی کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن کسی کو حرف شکایت زبان پر لانے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ حکومت چل نہیں پارہی لیکن اسے چھوڑنے کا تصور اس قدر محال ہے کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے ہر اصول اور وعدے کی قربانی بھی جائز سمجھی جاتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر پاکستان پینل کوڈ کی شق 89 کو معطل کیا ہے۔ اس شق کے تحت والدین، استادوں اور سرپرستوں کو بچوں کی بھلائی کے لئے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کا حق حاصل ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے بچوں کے حقوق سے متصادم اور عالمی کنونشنز کی خلاف ورزی سمجھا ہے لیکن اس پابندی کا اطلاق صرف اسلام آباد کی حدود میں ہی ہوگا۔ باقی پاکستان کے والدین، استاد اور سرپرست اپنے بچوں کی بھلائی کے لئے انہیں تشدد کا نشانہ بنانے میں آزاد رہیں گے۔ اسلام آباد کے نیک دل والدین بھی اگر شدید ضرورت محسوس کریں تو وہ تھوڑی تکلیف کرکے بچوں کو اسلام آباد کی حدود سے باہر لے جا کر ان کی ’درستی و اصلاح ‘ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد دارلحکومت میں واپس آسکتے ہیں۔

پاکستانی سیاست بھی ایک طرح سے شق 89 ہی کی زد میں ہے۔ ’اصلاح‘ کے نقطہ نظر سے اس کے سارے سرپرست اس کا حلیہ بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ یاوش بخیر اس قانونی و آئینی تشدد کا محور و مرکز اسلام آباد ہی ہے۔ دارالحکومت کی عدالت عالیہ نے ابھی عوام کی بھلائی کے لئے سیاست کی کسی غیر بیان شدہ شق 89 کو تلاش کرنے اور معطل کرنے کا حکم جاری نہیں کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments