احسان اللہ احسان کے نام ریاست کا ایک خط


میرے پیارے، راج دلارے احسان

اسلام علیکم!

امید ہے تم جہاں بھی ہو گے، ایک پرمسرت زندگی گزار رہے ہو گے۔ سب سے پہلے میں وقت ضائع کیے بغیر ان خطاوں کی معافی مانگتی ہوں جو مجھ سے جانے یا انجانے میں تمھارے ساتھ سرزد ہوئیں۔ معافی اس امید سے بھی مانگی جارہی ہے کہ کہ شاید تمھارا دل پسیج جائے اور تم بادل نخواستہ واپس لوٹ آو۔ مگر دوسری طرف میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میری معافیوں میں تلافیوں کی ہرگز وہ سکت نہیں رہی سو مجبورا التجاوں کی بیساکھیوں کا سہارا لیتی ہوئی تمھارے نام یہ خط لکھ رہی ہوں۔

پیارے احسان! کہا جاتا ہے کہ بچھڑے جائیں تو قسمت کی دیوی ہی آپس میں ملاسکتی ہے۔ یہ مجھ پر قسمت کی دیوی کی ہی مہربانی تھی کہ تین سال پہلے تم منظرعام پر آئے اور خاموشی سے میرے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ تھما دیا۔ جس پر بہت شور ہوا، بہت تنقید ہوئی، بہت سوں کی نظروں میں تو برسوں بعد جڑنے والا یہ رشتہ قطعی غیرفطری تھا۔ لیکن بہت کم لوگ ہی اتنے دورشناس ہوتے ہیں کہ وقت اور مصلحتوں کے غیر ہموار رشتے کی اہمیت سے آشنا ہوں۔

ان لوگوں کی نظروں میں ہمارے رشتے کی غیر ٖفطریت کی وجہ ملالہ پر قاتلانہ حملے، آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا قتلِ عام، اقلیتی عبادت گاہوں پر حملے جیسی کئی چھوٹی بڑی شرارتیں میں تمھارا نام آنا تھا۔ ان لوگوں کے خیالوں میں ایسی شرارتوں کے بعد تم ہرگز مستحق نہیں تھے کہ تمھارا ہاتھ تھاما جاتا۔ پر ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ تمھارے بھٹکنے کی ایک وجہ میرا ہاتھ مضبوطی سے نا تھامنا بھی تو ہو سکتا تھا۔

خیر جیسا کہ اوپر بھی ذکر کیا ہے کہ مصلحتوں کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ تم بھی تو جانتے ہو کہ ایسے ہی کچھ تقاضے تھے جس کی بنا ہمارا ساتھ چھوٹا۔ جس کی قصوروار میں ہی تھی اور میں ہی رہوں گی۔ پر ایسا ہرگز نہیں کہ جانتے بوجھتے ہاتھ چھوڑنا میرے ماں ہونے کی صفات کی نفی کرتا ہے۔ آخرمجھ ریاست کو ماں جیسی کہا ہی اس لئے جاتا ہے کہ ماں کے علاوہ اتنا بڑا دل کسی کے پاس نہیں ہو سکتا ہے جو 132 طالب علموں کے قتل والے خون آلود ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھام کر بریت کا علی الاعلان مظاہرہ کر دے۔

ماں کے علاوہ اتنا کشادہ سینہ کسی کے پاس نہیں ہو سکتا ہے کہ جو ایسے سینے کے سامنے اپنا سینہ سپر کر دیے جو ایک چودہ سالہ نہتی لڑکی پر حملہ میں ملوث ہو۔ بھلا ماں کے علاوہ ایسا کون ہو سکتا ہے جو ایسے فرد پر اپنی حرمت قربان کرنے کو تیار ہو جس نے مقدس مقامات کی حرمتوں کو تار تار کیا ہو۔ ایک ماں کی محبت کو تو ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ ایسے تمام اقدمات میرے کردار پر قدغن لگانے کا باعث بنتے رہتے ہیں پر میں کم از کم تمھارے لئے ایک اچھی ماں کہلانے کی حقدار بن جاتی ہوں۔ پر تمھارا روٹھ کر دور جانا میری اچھی ماں ہونے کا حق بھی سلب کرنے لگا ہے۔

پیارے احسان! میرے سب کچھ بیان کرنے کا یہ یرگز مقصد نہیں کہ میں تمہیں تمہاری نادانیوں پر شرمندہ کروں۔ بلکہ میں تو تمہیں ان مصلحتوں کا تقاضے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں جس کو سمجھ کر اگر تم واپس لوٹ آو تو میں ایک دفعہ پھر اپنی عزت کامیابی سے بچا کر ایک اچھی ماں کہلانے کی حق دار بن جاؤں گی۔ امید کرتی ہوں یہ خط جلد از جلد تمھارے واپسی لوٹنے کا سبب بنے گی۔

والسّلام

ایک مجبور ریاست


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments