دو ٹکے کی صحافت!


زندگی میں جنون کی حد تک پیارے شعبہ صحافت کے بارے میں ایسے الفاظ یقینا میری زندگی کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک ہیں۔

بہت عرصے سے شدید کرب و اذیت میں مبتلا ہوں، لوگوں کی ایسی ایسی باتیں سننا پڑتی ہیں کہ جومیرے ضمیر کو نا صرف جھنجھوڑتی ہیں بلکہ سر جھکانے پر مجبور کرتے ہوئے صحافت کو دو ٹکے کی مار ماننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

میں ناجائز فروشوں کی بات کروں تو مجھے اپنی ہی فیلڈ کے لوگ دکھائے دیتے ہیں جن کی آشیر واد سے دھندہ چلایا جاتا ہے، میں مردہ جانوروں کے گوشت سمیت ناقص اشیا خوردنی پر لب کشائی کروں تو اس شعبہ کو دو ٹکے میں بیچنے والے صحافیوں سے ملاقات کرتا ہوں۔

شہر کے طول و عرض میں پھیلے ہر ناجائز کام کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مقام پر مجھے میری صحافت نظر ضرور آتی ہے۔

اپنے مفادات کے لئے کسی کو بلیک میل کرنا ہو تو بغیر تصدیق کے اچھی شہرت کے افسران کی کردار کشی کی مہم شروع ہو جاتی ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ شہر میں اگر شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے دو چار صحافی دوست کسی افسر کی بدگوئی کر دیں تو میں یقین محکم سے اس افسر کی ایمانداری و فرض شناسی کی قسم تک اٹھا سکتا ہوں۔

تھانے کے ایک پرانے منشی کی بات مجھے کئی روز سے نیند سے بیدار کرتے ہوئے میرے ضمیر پر ہتھوڑے برساتی ہے۔

فون دیر سے اٹھانے کے شکوے پر صحافت کے ریپ کی درد ناک کہانی چسکے لیتے ہوئے پولیس اہلکار بتاتا ہے کہ صاحب جی یہ ان صحافیوں کی لسٹ ہے جو عید کے روز عیدی لے کر گئے ہیں اور ایس ایچ او صاحب نے باقاعدہ کہا تھا کہ کوئی صحافی پوچھے تو کہنا صاحب نہیں ہیں کیونکہ شاید عیدی کے نوٹ کم پڑ چکے تھے۔

معزز دوستوں میں جس بھی جگہ جاتا ہوں، جس بھی مافیا کی بات کرتا ہوں لوگ مجھے ایسے صحافت کے گریبان میں جھانکنے کا کہتے ہیں کہ میں لاجواب ہو جاتا ہوں۔

کرائم کی بیٹ کرتے ہوئے میرا واسطہ کیونکہ روز پولیس سے پڑتا ہے اس لئے وہاں جا کے بھی اپنوں کے چلائے نشتر سنتے ہوئے سر شرم سے جھکا کر آئندہ وہاں نہ جانے کا فیصلہ کر کے ماندہ قدموں سے واپسی کی راہ لیتا ہوں لیکن!

کیا میں یہ سب کچھ دیکھ کر چپ سادھ لوں؟

میرا ضمیر مجھے کہتا ہے کہ پردہ چاک کرو اس مقدس شعبہ کے ریپرز کا، پر جب میں آئیڈیل معاشرے کا آئینہ اتار کے دیکھتا ہوں تو حقیقت کا چشمہ مجھے چکرا دیتا ہے کیونکہ یہاں اگر کسی صحافی کی کرپشن یا بددیانتی پر لب کشائی کی جائے تو چند ہزار روپے تنخواہ نہ ملنے پر موت کی آغوش میں جانے والے محنت کش صحافیوں کے انڈر ورلڈ ڈان نما لیڈرز صحافت پر حملے کا الارم بجا کر ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے پر اتر آتے ہیں اور کرب ناک سچ تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان بھی اس لینڈ مافیا نما صحافت کا حصہ بن کر اسے دو سے ایک ٹکے پر لانے پر بضد ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments