کمزور سہیل کی باکرہ دلہن


ایک کلو بادام بھی تول دو، میں نے دکاندار سے کہا اور فہرست دیکھنے لگا کہ کچھ رہ تو نہیں گیا، چھوہارے، ناریل، خشک خوبانی، بتاشے اور میٹھی سپاریاں، سب کچھ تھیلیوں میں رکھ دیا گیا تھا، اپنا پسندیدہ میوہ بادام پیک کروانے کے بعد میں نے دکاندار سے کہا، آپ لوگوں کا تول درست نہیں ہے، کیسی بات کرتے ہیں بھائی، اتنے سالوں سے ہم سے سودا لے رہے ہیں، شادیوں پر بھی بری کا میوہ ہماری دکان سے گیا، اب آخری شادی پر ایسی باتیں تو نہ کریں، پچھلے دنوں میرا دوست بیرون ملک سے آیا اور میرے لئے بادام لایا، پیکٹ کھول کر اسی مرتبان میں ڈالا جس میں سالہا سال سے تم سے بادام خرید کر رکھتا ہوں، کبھی پورا نہیں بھرا، لیکن بیرون ملک سے لائے باداموں سے پورا مرتبان بھر گیا، میں نے اسے بتایا۔

وہ خفگی سے بولا اشرف بھائی ایسی باتیں نہ کریں، وہ زیادہ ہوں گے، نہیں بھائی پورا ایک کلو کا پیکٹ تھا اس پر لکھا تھا، بیرون ملک یہ جعل سازیاں نہیں ہوتیں، جو لکھا ہوتا ہے وہی فروخت کیا جاتا ہے، ہاں تو ان کی حکومت اچھی ہے، ان کے یہاں نظام اچھا ہے، وہ منہ بنا کر بولا، میں نے مسکراتے ہوئے ادائیگی کی، سامان اٹھا کر موٹر سائیکل سے باندھا، اور گھر کی طرف روانہ ہوا، راستے میں بار بار ٹریفک جام ملا، بے ترتیب چلتی گاڑیاں اور موٹر سائکلیں، رہائشی علاقہ شروع ہوا تو اسی سڑک پر گدھے گاڑیاں اور سائیکل چلاتے بچے بھی ملتے گئے۔

شل بازووں کے ساتھ گھر کے سامنے پہنچا، تو سہیل اور اس کا دوست گھر سے باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے، ہم چار بھائی ہیں سہیل سب سے چھوٹا ہے، اس کی شادی کے لئے ہی میں بری کے میوہ جات اور نکاح کی مبارکباد کا لازمی جز چھوہارے لینے کے لئے گیا تھا، سہیل کے دوست سے سلام دعا کی، اورگھر میں داخل ہو گیا، گھر میں مجھ سمیت تین بھائیوں کے بچوں نے اودھم مچا رکھا تھا، بچوں کو ٹوکتے ہوئے میں نے سامان لے جا کر والدہ کے کمرے میں رکھ دیا، اور بادام لے کر بالائی منزل پر موجود اپنے کمرے میں آگیا، کچھ دیر کے بعد میری بیوی پانی لے کر آئی اور پوچھنے لگی کیا کیا لے آئے۔

کچھ بھولے تو نہیں، میں نے اکتاتے ہوئے کہا، اماں سے پوچھو، کچھ رہ گیا ہو گا تو پھر لے آوں گا، تم کھانا لگاو، بھوک لگ رہی ہے، دستر خوان لگا دیا ہے، آ جایئے، میں نے پانی پیا اور چند لمحے رک کر زینے کی طرف بڑھا، زینہ اترتے ہوئے سہیل مل گیا، جس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا خاکی لفافہ تھا، غیر محسوس طور پر سہیل نے لفافہ چھپانے کی کوشش کی، میں نے اس کی یہ حرکت محسوس کر لی، لیکن کچھ کہا نہیں، صرف اتنا کہا، کھانا کھاؤ سب کے ساتھ، جی بھائی آ رہا ہوں، وہ بولا، سب نے کھانا کھایا، سہیل بھی بچوں کے ساتھ چہکتا رہا، ۔

کھانا کھا کر بچوں کو سلانے اور اماں سے چند باتیں کرنے کے بعد میں بھی سونے کے لئے اپنے کمرے میں آ گیا، میری بیوی نے پوچھا، آفس سے چھٹی کب لیں گے، آج درخواست دے دی ہے، کل کچھ ضروری کام نمٹا کر پرسوں سے چھٹی شروع ہو جائے گی، میں نے اسے بتایا، بس ٹھیک ہے، بری کے سلے کپڑے درزن سے اٹھانے ہیں، جوتے اور چند ضروری اشیاء خریدنی ہیں، پھر ان کو پیک بھی کرنا ہے، ابھی تک تم لوگوں کی ضروری اشیاء ختم نہیں ہوئیں، شادی میں صرف ہفتہ رہ گیا ہے، میں نے تلخی سے کہا۔

بس کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا ہے، مہنگائی بھی تو ہو گئی ہے، بازار جاؤ تو سمجھ ہی نہیں آتا، کہ کیا خریدا جائے کیا چھوڑا جائے، اوپر سے بچے بچیوں کی فرمائشیں، آخری چاچو کی شادی ہے، سب بہت انجوائے کرنا چاہتے ہیں، آپ کل پیکنگ کرنے کا کاغذ، ڈبے اور بچیوں کے لئے مہندی کی تھالیاں لے آیئے گا، آپ کے دفتر کی طرف جو بازار ہے وہاں سستے ملتے ہیں، اچھا ٹھیک ہے میں نے لیٹتے ہوئے کہا، تھوڑی دیر کے بعد مجھے نیند آ گئی، صبح حسب معمول اٹھا اور ناشتہ کر کے دفتر کے لئے روانہ ہو گیا۔

دفتر پہنچا اور ضروری امور نمٹانے کے بعد قریبی بازار نکل گیا، گتے کے ڈیزائن والے ڈبے، مہندی کی تھالیاں، اور دوسرا آرائشی سامان لے کر گھر روانہ ہوا، دروازہ میری بیوی نے کھولا، سب بچے کہاں ہیں، میں نے حیرت سے پوچھا، بازار تک گئے ہیں آج آخری خریداری کرنی ہے، لڑکیوں کے لئے چوڑیاں اور لڑکوں کے لئے مہندی کے دن پہننے والے کرتے، اچھا کہتے ہوئے میں اماں کے کمرے میں آیا تو سہیل اور میرا دوسرے نمبر والا بھائی اور بھابھی بیٹھے تھے، سلام کر کے میں نے سامان رکھا، چلو بھئی سہیل اپنی دلہن کے لئے کپڑے اور جوتے پیک کرنا شروع کرو، بھابھی نے سہیل کو چھیڑا۔

اب یہ بھی میں کروں، کتنا پیسہ تو ان کپڑوں، جوتوں اور ڈبوں پر ضائع ہو چکا ہے، سہیل نے تلخی سے کہا، آئے ہائے ضائع کیوں، خیر سے شادیوں پر خرچہ ہوتا ہی ہے، اماں نے سہیل کو دھپ لگائی، تینوں لڑکیوں کو ساتھ لگایئے، سب ایک ہی دن میں ہو جائے گا، میں نے بھابھی کو مشورہ دیا، ہاں یہی تو کرنا ہے، پھر دو دن کے بعد ڈھولکی رکھیں گے، سہیل بھی بچوں کے ساتھ گانے گائے گا، بھابھی نے پھر سہیل کو چھیڑا، سہیل اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

لو اس کو کیا ہوا، بھابھی نے حیرت سے کہا، مجھے بھی سہیل کے رویئے پر حیرت ہوئی، بلکہ سب ہی اس کے کمرے سے باہر نکلنے پر چپ ہو گئے، چلو تھکا ہوا ہو گا، اماں نے کہا، ہم سب کچھ دیر گپ شپ کرتے رہے پھر میں اٹھ کر بالائی منزل پر آیا، سہیل اپنے کمرے میں بیٹھا دیوار کو گھور رہا تھا، اس کو کمرے میں میرے داخل ہونے کا معلوم بھی نہ ہوا، سہیل کیا ہوا تمہیں، اس طرح کیوں بیٹھے ہو، میں نے اسے غور سے دیکھا، اس نے یک دم چونک کر میری طرف دیکھا، اور پھر گھبرا کر بولا، کچھ نہیں بھائی، تم چند دنوں سے کچھ الجھے ہوئے اور پریشان نظر آتے ہو، کیا ہوا ہے؟

وہ میری طرف خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا، ایسی کوئی بات نہیں ہے بھائی، وہ نظریں جھکا کربولا، دیکھو پیسوں وغیرہ کا مسئلہ ہے، تو فکر نہ کرو، میرے پاس ہیں، میں نے اسے تسلی دی، اس نے طویل سانس لی اوربولا، بہت شکریہ بھائی، آپ میرے لئے سب کچھ ہیں، ہمیشہ میرا ساتھ دیجئے گا، کیسی بات کرتے ہو، ہم سب ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے، بس تم بیوی کے آنے کے بعد بدل نہ جانا، اسی طرح ہمارے ساتھ رہنا، میں مسکرایا، سہیل اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے قریب آ گیا، بالکل نہیں، ہم چاروں بھائی اسی طرح ایک ساتھ اسی گھر میں رہیں گے، میں نے اس کا شانہ تھپکا اور کمرے سے باہر آ گیا۔

پورا ہفتہ خریداری، شادی کے انتظامات اور مہمانوں کی آمد میں مصروف گزرا، بچوں کی خوشی اور ہلے گلے کے لئے گھر میں مہندی کی چھوٹی سی تقریب بھی رکھی، قریبی رشتے دار بھی آگئے، مہندی والی شام سب بچوں نے خوب اودھم مچایا، گانے گائے، رقص کیا، سہیل کا کمرہ سجایا اور تھک ہار کر سو گئے۔

صبح سویرے ہی میری آنکھ کھل گئی، بارات لے جانی تھی، اور مجھے ہمیشہ ہی فکر ہو جاتی تھی کہ سارے امور خوش اسلوبی سے انجام پا جائیں، ذہن میں کاموں کی فہرست بناتے ہوئے میں بستر سے اٹھا اور کمرے سے باہر آ گیا، سہیل کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے مجھے سہیل کی بلند آواز سنائی دی، وہ کسی پر چیخ رہا تھا، کمینے تیری وجہ سے ہی یہ ہوا، تو نے میرے اتنے پیسے برباد کروا دیے، کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا ہے، آج میری شادی ہے، اب کیا ہو گا آخر، مجھے محسوس ہوا کہ وہ روہانسا ہو رہا ہے، آخر ایسا کیا ہوا ہے، میرا دل چاہا کہ میں اندر گھس جاوں لیکن دروازہ دھکیلا تو وہ بند تھا، دوسرے کمرے کا دروازہ کھلا، اور میرے دوسرے بھائی کی بیوی باہر نکلی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments