فنونِ لطیفہ کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟


موجودہ دور میں جہاں معاشرتی مساٸل کو حل کرنے کے لٸیے مختلف مکتبہِٕ فکر کے لوگوں کو آپس میں مل بیٹھ کر سنجیدگی سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے, وہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سیکولرزم اور بنیاد پرستی کے مابین فاصلہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس فرق نے مکالمے کی سپیس کو ختم کردیا ہے۔ یہ رویہ پاکستانی معاشرے کے مستقبل کو تو مزید متاثر کرے گا ہی۔ جو موجودہ دور میں ہم اس کے اثرات دیکھ رہے ہیں ان میں ایک بہت افسوسناک رویّہ آرٹس کے ڈسپلن سے دوری ہے۔

مذہب ہمیں ایک نظریہ دیتا ہے، کچھ اصول و ضوابط طے کرتا ہے، زندگی گزارنے کے لئے ضابط اخلاق دیتا ہے، جبکہ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایک مخصوص ضابطہ اخلاق کی صلاحیت کو سمجھنے یا اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے آرٹس کے وسیلے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار آرٹ اور ادب کے ذریعے ہوتا ہے۔ انسانی تخلیقی صلاحیتوں کی پرورش کے لٸیے آرٹ اور ادب کا پرورش پانا بہت ضروری ہے۔ انسان اپنی تخلیقی صلاحیتیں آرٹس کے توسط سے ابھارتا ہے۔ اگر مذہب ایک آسمانی ضابطہِٕ اخلاق ہے، تو آرٹ اس کا زمینی مظہر ہونا چاہئے کیونکہ اس کا تعلق انسان کے ذہنی قلبی، نفسیاتی اور فکری صلاحیت سے ہے۔ آرٹ کے ذریعے ہم تخیل کی ہیجانی کیفیت کو حقیقت کا رنگ بخشتے ہیں۔ فن ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ہمارے دماغ، دل اور روح کو کھولتا ہے۔ ہم مشاہدہ کرنا جانتے ہیں اور عقلی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی وہ غوروفکر کرنےکی چیز ہے جو قرآن دراصل ہمیں بار بار کرنے کو کہتا ہے۔ لیکن کوئی مُّلا قرآن کی تشریح کے اس امکان کو جو کہ فنونِ لطیفہ کی مرہونِ منّت ہو دین و دنیا میں خیرمقدم نہیں کہے گا۔

آرٹسٹ تعریفی اعتبار سے مذہبی یا ملحد نہیں ہوتا اور نہ ہی ادب مذہبی یا سیکولر ہوتا ہے۔ فن ہماری روح کی پرورش کرتا ہے۔ صوفیإ کرام نے عرفان حاصل کرنے کے لٸیے نے روح کی پرورش پر خاص زور دیا ہے جس میں رقص اور موسیقی کا ایک نمایاں کردار ہے۔ رومی کے اپنی ذات کے محور کے گردایک خاص انداز میں گھوم کر رقص کرنے والے درویش روحانی اور باطنی سفر کی علامت بن گئے ہیں۔ جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی پرورش کرنا جانتا ہے وہ معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔

میں نے ایک بار ایک مذہبی عالمہ کو اپنی بیٹی سے یہ کہتے ہوئے سُنا، “تمہیں ناول پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ جاؤ! اس کے بجائے سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوٸی کتاب پڑھو۔“مجھے مرحوم نانی امّاں کی بات یاد آرہی ہے۔ وہ جب ہمیں انگریزی ادب پڑھتا ہوا دیکھتیں تو کہتیں گوروں کی لکھی کتابیں پڑھ کر کیا کروگی؟ کوٸی دینی تعلیم حاصل کرتی۔ خُدا کو کیا منہ دکھاٶگی؟ یہ بات تب میں ان کو نہ سمجھا سکی اور اب بھی بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی یہ نہیں جانتے کہ ادب کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟

 میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میں کسی بھی طرح سے دینی تعلیم کو مسترد نہیں کر رہی ہوں، لیکن اس کو آرٹس سے الجھانا ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے جبکہ آرٹ مذہب کا ایک تخلیقی روپ ہے اُس کے مخالف چیز نہیں ہے۔ آرٹس سے ہمیں مذہبی لاٸحہِٕ عمل کے نفسیاتی رویّے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کہ مذہبی فکر اور سوچ کو مزید پختہ بناتا ہے۔ نہ تو اسے توڑتا ہے اور نہ ہی اُس سے دوری پیدا کرتا ہے۔

پچھلے سال ہم سب نے دیکھا کہ جیمز ہلٹن کے ناول گڈ بائے مسٹر چپس کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلاٸی گٸی جس کے نتیجے میں اس ناول کو نصاب سے نکال دیا گیا۔ یہ بار بار مطالبہ کیا جاتا رہا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک مضمون یا کتاب کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ مذہبی علوم کے شعبے کے تحت اسلامی علوم کے نصاب میں ایسی کوئی کتاب شامل کرسکتے ہیں، لیکن آپ دینی تعلیم کو آرٹ کے ساتھ الجھا نہیں سکتے۔ اور پھر، ایک اور بحث یہ بھی ہے کہ آرٹ زمینی حقائق سے جڑے ہوئے عوام کے معیار، اقدار اور ذاتی تجربات کا عکاس ہے جو کہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور جس سے آپ نظریں نہیں چُرا سکتے۔ لیکن دوسری طرف آپ اس کو مذہب مخالف اور سیکولر قرار دے کر انسانی زندگی اور اس سے حاصل ہونے والے مشاہدات اور تجربات جیسی اہم چیز کو کیسے مسترد کر سکتے ہیں؟

تاریخ میں ہم فنونِ لطیفہ اور مذاہب کے مابین اتنا فرق نہیں دیکھتے جتنا ہم عصرِ حاضر میں دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ میں ہم خطاطی اور اسلامی فنِ تعمیر کو پھلتے پھولتے دیکھتے ہیں۔ ہمیں متعدد تاریخی یادگاریں اور فنون لطیفہ کے نمونے نظر آتے ہیں جو انہیں اسلام میں فنونِ لطیفہ کی اہمیت سے متعارف کرواتے ہیں اور یہ کہ یہ تعلق کیسے مربوط کیا گیا۔ لیکن اب خطاطی اور اس طرح کے دوسرے فنون کی جدید تشریح ‘اسلامی’ آرٹس کے طور پر کی جاتی ہے جبکہ دیگر فنون جیسے رقص، موسیقی اور فلم پر ‘غیر اسلامی’ کا لیبل لگا دیا گیا ہے، کیوں کہ مذہبی علماء جس چیز کو تسلیم کرنے میں ناکام ہیں وہ انسانی زندگی میں فنونِ لطیفہ کی اہمیت ہے۔

یہ دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ماضی میں کس طرح فن مذہب سے اتنا اچھی طرح سے جڑا ہوا تھا کیونکہ اس نے اس کے مقصد کو زیادہ موثر انداز میں فروغ دینے میں مدد فراہم کی۔ علامہ اقبال نے اپنے لیکچرز “اسلام میں مذہبی فکر کی ازسرنو تعمیر” میں بھی اسی فلسفہ کو بیان کیا ہےکہ اسلامی نظریہ کو اپنی اقدار کی موافقت اور دوبارہ تعریف کی ضرورت ہے۔

عصرِ حاضر میں مذہب کی فنون لطیفہ کی قدر کو سمجھنے میں نااہلی دراصل ایک اور مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو کہ انسانی طرز زندگی میں مذہبی ذہن کی بڑھتی ہوٸی نااہلی ہے۔ کیونکہ جو ذہن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ انتہا پسند بن جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments