تاریخِ پاپوشاں


پاپوش فارسی لفظ بمعنی پاؤں کا لباس ہے۔ چنانچہ پاؤں کو ڈھانپنے والے لوازمات کو پاپوش کہتے ہیں۔ عرف عام میں جوتے کے نام سے منسوب ہے۔ جوتا چونکہ بے توقیر سا لفظ ہے لہٰذا جوتوں کو پیار اور احترام سے پاپوش کہا جاتا ہے۔ پاپوشوں کے بغیر کوئی فرد، گروہ اور ادارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا رہ سکتا ہے نہ چل سکتا ہے۔ نیز اَن سدھرے لوگوں کو سدھارنے کے کام بھی آتا ہے۔ پوری د نیا کی طرح وطنِ عزیز میں بھی تاریخی، پائیدار اور دیدہ زیب پاپوش پائے جا ْ تے ہیں۔

ان پاپوشوں کا شجرۂ نسب جوتوں کے قدیم خاندان سے ملتا ہے۔ جوتوں سے متعلق سماج میں ڈھیروں محاورات بولے جاتے ہیں جن میں جوتا چرانا، جوتا چھُپانا، جوتا کھانا، جوتا مارنا، جوتا دکھانا، جوتا لہرانا، جوتے چاٹنا، جوتا پھینکنا، جوتے سیدھا کرنا، جوتا سونگھانا، جوتوں میں دال بٹنا، شامل ہیں۔ مختلف ادوار میں اسے کھُسہ، ناگرا، کھڑاواں، چپل، سینڈل، گرگابی، کفش، پاپوش اورسلیپر کہا جاتا رہا۔ پاپوش قبیلے کے سردار کو بوٹ کہتے ہیں۔

موجودہ بوٹ خالص چمڑے سے بنائے جاتے ہیں اورچمڑہ کھال سے حاصل ہوتا ہے جبکہ کھال ہر قسم کے جانداروں سے اتاری جاتی ہے۔ سیاسی نظام میں تو پاپوشوں کی بڑی دھوم رہی ہے۔ ماضی میں بادشاہ اسی کے ذریعے امورِسلطنت چلاتے تھے۔ آمریت میں جوتوں کے ساتھ ڈنڈا بھی آن مِلا۔ البتہ جمہوریت میں پرائے جوتوں سے جاں خلاصی ہوئی اورعوام کے سر پر ان کا اپنا جوتا سوار ہوا۔ جمہوریت کی تعریف کچھ یوں ہوئی (لنکن سے معذرت کے ساتھ)

shoes of people، by the people، for the people۔

روحانی میدان میں ”بوئے شیخ می آید“ کی صدائیں سنی گئیں۔ عاملین اور پیر انِ عظام ان سے جن بھوت نکالنے کا شافعی علاج فرماتے ہیں جبکہ مساجد میں یہ ہمہ وقت کثیر تعداد میں پائے اور چُرائے جاتے ہیں۔ حسنِ ظن ہے کہ اللہ کے گھر سے مسلمان شایدتبرکاً اور عقیدتاً جوتے اُٹھا کے اپنے گھر لاتے ہوں۔ علاوہ ازیں مساجد میں اب نمازیوں کو ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے پاپوشوں کی حفاظت کا بیڑہ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ سجدہ گاہوں پہ نظر مرکوز کرنے کے ساتھ سامنے رکھے اپنے جوتوں پہ بھی نظر رکھنا لازم ہے۔ بقول شاعر،

کہا اک مولوی نے دیکھ کر جوتا مرے آگے۔ اگر ہو سامنے جوتا تو پھر سجدہ نہیں ہوتا

کہا میں نے، بجا ارشاد ہے یہ آپ کا لیکن۔ اگر پیچھے رکھیں جوتا تو پھر جوتا نہیں ہوتا

اک قائد عوام کو لوگوں نے جوتے دکھائے تو جواباً اپنے نام کے مشہور زمانہ ٹائر والے جوتے متعارف کروادیے۔ تاہم اب نا پید ہوچکے ہیں۔ پھر اسی قائد کی بہادر بیٹی نے بطور قائد حزب اختلاف اپنے حریف کی تقریر پر اپنی لمبی ہیل والی جوتی سے ڈیسک بجا کر سینڈل کو عزت دی۔ جوں جوں وقت گزرا جوتوں کی عزت بڑھتی گئی اور عالمی سطح پہ نام کمایا۔ دنیا کے نامور لیڈروں کی جوتوں سے عزت افزائی کے سلسلے شروع ہوئے۔ ہمارے ہاں اسے بے مثال مقام حاصل ہوا اور ضرب المثل قرار پایا۔

فی زمانہ کفش بردار وزراء اپنے ساتھ بوٹ کی رونمائی ٹی وی پہ کراتے رہتے ہیں۔ اسم ظرفِ مکاں کے لحاظ سے اس کی نوک واحد مقام ہے جس پہ کسی کو نہ رکھنے کی دھمکی دی جاسکتی ہے۔ جوتے کا ایک نام کفش بھی ہے۔ مگر اس کا کشف، انکشاف یا کاشف سے کوئی تعلق نہیں۔ جوتوں کی اہمیت و احترام کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کتابیں فُٹ پاتھوں اور گلیوں میں بکتی ہیں جبکہ جوتے شیشے کی الماریوں میں تشریف فرما رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاپوش پہ آفتاب کی کرن سجانے کی باتیں مشہور ہوئیں۔ فی زمانہ منقش، نپے تُلے اور تِلے دار جوتوں اور جوتیوں کی ورائیٹاں دلوں، آنکھوں اور پیروں کو لبھاتی ہیں۔ تاہم بوٹ کو پاپوش قبائل کی قیادت اور سیادت کی سعادت حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments