تعلیمی اداروں کی شوبازیاں


ایک دن گورنمنٹ ڈگری کالج کے طلباء پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے اور کالج کے حوالہ سے ایک دردناک کہانی سنائی۔ اس کہانی کو سن کر مجھے محسوس ہوا کہ اس پر لکھا جائے۔ بچوں کا موقف تھا کہ ہم نے کالج میں ایڈمیشن لیا تھا اور کالج میں فائل جمع کروانے کے ساتھ ہی ہم نے اپنی سالانہ فیس ادا کی اور باقاعدہ طور پر کالج کا اسٹوڈنٹ تسلیم کرتے ہوئے رول نمبرز بھی الاٹ کر دیے گئے اور اس کے ساتھ ہی ایک بیان حلفی پر دستخط بھی کروائے گئے جو کہ تجویز کردہ فوٹواسٹیٹ شاپ پر دستیاب ہوتا ہے۔

اس حلف نامہ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ”زیر تعلیم گورنمنٹ کالج۔ میں بطور طالبِ علم حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنی 75 %حاضری پوری کرنے کا پابند رہوں گا۔ حلفاًبیان کرتا ہوں کہ کلاس سیکنڈائیر میں انٹرنل امتحانات ماہانہ ٹیسٹوں کے علاوہ کالج کے ریگولر امیدوار کے طور پر داخلہ بھیجنے کے لیے ٹیسٹ کے تمام مضامین پاس کرنے کا پابند ہوں گا۔ اگر درج بالا شرائط پوری نہ کرنے پر میرا داخلہ روک لیا گیا تو میں اس فیصلہ کوتسلیم کروں گا اور کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کروں گا“

اب چونکہ دسمبر ٹیسٹ کے بعد کالج اپنے طلباء کا بطور ریگولر طالب علم کا داخلہ بھیجنے کا ذمہ دار ہے مگر المیہ یہ ہوا کہ جو بچے کالج کا یہ ٹیسٹ کلئیر نہیں کر پائے ان طلباء کا داخلہ بطور ریگولر طالبِ علم بھیجنے سے کالج کی انتظامیہ نے ہاتھ کھینچ لیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ آپ کا ٹیسٹ پاس نہیں ہوا اس لیے کالج آپ کا داخلہ بطور ریگولر امیدوار کے بھیجنے کا مجاز نہیں ہے۔ طلباء سے کہا گیا کہ وہ یا تو اپنا داخلہ بطور پرائیویٹ امیدوار کے بھیج دیں یا تو سپلیمنٹری امتحان تک انتظار کر لیں۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچے کی امتحانی کارکردگی کا کیا بچہ ہی اکیلا ذمہ دار ہے یا کچھ ذمہ داری کالج کے اساتذہ کی بھی بنتی ہے کیونکہ ان بچوں کی تعداد کافی ہے اور کالج کی انتظامیہ ان بچوں کو ”اسکیپ گاٹ یا بَلی کا بکرا“ بنا کر اپنے سر سے اتار کر رزلٹ کی شرمندگی سے بچنے کا پورا فول پروف پروگرام بنا چکی ہے مگر اس ساری مشق کا خمیازہ بچے اور ان کے والدین بھگتیں گے۔ ان والدین نے اپنے بچوں کا مستقبل گورنمنٹ کالج کو اس امید پر سونپا تھا کہ کالج کے قابل اساتذہ کرام میرے بچے کی اسکولنگ بہترین انداز میں کرسکیں گی مگر یہاں تو سارا قصور ہی بچوں کا نکل آیا اور کالج انتظامیہ کا ان بچوں کی ناکامی میں بالکل بھی کوئی ہاتھ نہیں ٹھہرا۔

کالج انتظامیہ نے بڑے ہی صفائی سے امتحانی ٹیسٹوں کے ذریعے سے اور اپنے ہی قائم کیے ہوئے ٹیویشن سنٹرزمیں کچھ بچوں کو انفرادی توجہ دے کر کالج اور اپنی شہرت کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے بچوں کی اس کریم کو چھلنی کر لیا جو ان کے اور کالج کے وی آئی پی سٹینڈرز کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوں تاکہ کالج اور اس کی انتظامیہ کی ساکھ پر کوئی حرف نہ آئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے تعلیمی پس منظر میں کون پِس رہا ہے؟

طلباء اور ان کے بیچارے والدین، باقی سب خیر ہی خیر ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں والدین کے لیے بچوں کو تعلیم دلوانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور والدین ان تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے بھیجتے ہیں مگر انہی والدین کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا کہ ایک سال کا تعلیمی دورانیہ پورا کرنے کے بعد بھی ہمارا بچہ کالج کا بطور ریگولرامیدوار بننے کا اہل نہیں ہے؟ اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ کالج کے قابل پروفیسرز بجائے اپنی کمی کوتاہی کو تسلیم کرنے کے سارے کا سارا ملبہ بچے اور اس کے والدین پر انڈیل دیتے ہیں۔

میری نظر میں قابل کو مزید قابل بنا دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا بلکہ ابنارمل کو نارمل بنانا اور کند ذہن بچے کو پالش کرنا نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے اور ایک اچھے استاد کا یہی فن ہوتا ہے کہ وہ کچھوے کی چا ل چلنے والے طالبِ علم کو بھی اپنی ذہنی مہارت کے ذریعے سے وننگ اسٹینڈ تک لے جائے۔ اوپر دیے گئے بیانِ حلفی کے نمونے کو پڑھ کر بھی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پوری کی پوری ذمہ داری بچے پر ہی ڈالی گئی ہے اور اپنے آخری حربے یعنی بچوں کو پرائیویٹ امیدوار بنانے کا انتظام کر کے ایک نابالغ بچے سے حلف نامہ لے لیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی بھی قسم کا اعتراض نہ کر سکے اور کالج انتظامیہ ہر طرح سے محفوظ رہ سکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے کے اس حلف نامہ کی کوئی قانونی حیثیت بنتی ہے؟ تعلیمی سال کی ابتدا میں ہونے والے ایڈمیشن کی تعداد اور تعلیمی بورڈ کو بھیجے جانے والے فائنل امتحان کی تعداد کا موازنہ کیا جائے تواس سارے معاملے کی قلعی کھل جائے گی اور پتہ چل جائے گا کہ کالجز میں کل ایڈمیشن کی تعداد کیا تھی اور بطور ریگولر امیدواران کتنے طلباء کا داخلہ بھیجا گیا ہے۔ مگر سوال یہ کہ کیا ایسا ہو سکے گا؟ یہ کسی ایک کالج کی نہیں بلکہ پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کے بیشتر سرکاری کالجز کی صورتِ حال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments