عوام کا مجرم، سیاستدان یا بیوروکریٹ؟


پوری دنیا میں بیورو کریسی کا اصل کام حکومت وقت کے قواعد و ضوابط کو بھرپور لگن اور دیانتداری سے نافذ کرنا ہوتا ہے۔ عوام کے وسیع تر مفاد میں سول ملازم کی حیثیت سے نظام حکومت چلانا بیورو کریسی کے فرائض میں شامل ہے۔ سیاستدان لمبے عرصہ کے لئے حکومت میں نہیں رہ سکتے اس لئے بیوروکریسی بہتر انداز میں زیادہ عرصے کے لئے حکومتی نظا م کی دیکھ بھال کر سکتی ہے۔ قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ذمہ داری بیورو کریسی کی نہیں ہو تی البتہ وہ اس عمل میں حکومت وقت کی معاون ضرور ہو سکتی ہے۔

عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی حیثیت سے سیاستدانوں کو قواعد و ضوابط وضع کرنے چاہیے مگر نا اہل سیاسی قیادت نے بیورو کریسی کو سول ملازم سے حکمران بنا دیا ہے۔ بیوروکریٹ اپنے آفس میں بادشاہوں کی طرح لوگوں کو ڈیل کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے سیاستدان جو عوام کے منتخب نمائندے ہیں وہ کرپٹ ہیں اور ہم سے ڈھکے چھپے نہیں لہذا ان غریب عوام کو تن کے رکھواور ان پر اپنی بادشاہی برقرار رکھو، ادھر عوام دھکے کھا کھا کر اپنے منتخب نمائندوں سے لیٹر یا فون کروا کر آتے ہیں ان کے سامنے بیوروکریٹ بھڑیے کی طرح ان سے پیش آتے ہیں جہاں بیوروکریٹ کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے وہ کام ان سیاستدان کے کھاتے میں ڈال کر کر دیتے ہیں ورنہ بھاگا دیتے ہیں اور اتنا لمبا طریقہ وردات بتاتے ہیں بندہ کسی کرپٹ مافیا کو پیسے دے کر کام کروانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ادھر پارلیمنٹ میں سارادن گالم گلوچ کی سیاست کے علاوہ کوئی کام نہیں رہا۔

پچھلے ستر سال سے زائد عرصے سے پاکستان کے سیاستدان، بیوروکریٹ، جج، جرنیل اور پالیسی بنانے والے عوام کو ہمیشہ ایک بات ہی سُنائے چلے جارہے ہیں کہ ملک اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دو چار ہے، ملک پر اس وقت شدید معاشی دباؤ ہے وغیرہ۔ خاص طور پر آج کل الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی بھرمار نے ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں کے لیے یہ کام اور بھی آسان کر دیا ہے کیونکہ میڈیا ہمیشہ منفی خبروں کو ہی اپنی ریٹنگ کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

ایک کے بعد ایک سیاسی، فوجی اور نیم جمہوری حکومتیں آتی رہیں اور ہر بار ہر حکومت کا خاتمہ اس کی بدعنوانیوں پر ہی ہوا یا پھر کیا گیا۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جو بھی شخص حکومت میں ہوتا ہے اسے سب لٹیرا سمجھتے ہیں اور جونہی حکومت سے باہر آتا ہے تو وہ مظلومیت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہو کر اگلی باری حکومت کرنے کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ یہاں ہر سیاستدان، ہر لیڈر اور ہر بڑے آدمی پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگے مگر بار بار اُنہی لوگوں نے عوام کو بے وقوف بنایا۔

ملک میں برائیوں کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتیں بنیں، احتساب عدالتیں بنیں، شرعی عدالتیں بنیں، ایک کے بعد ایک ادارے بنے ؛ سیکڑوں قسم کے کریک ڈاؤن، آپریشن اور پالیسیاں بنیں، لوگوں کا احتساب ہوا، جیلیں ہوئیں، کورٹ مارشل ہوئے، معطلیاں ہوئیں، جرمانے ہوئے، سزائیں ہوئیں مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی جو آج حالت ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہمارے قومی مجرموں کو پہچانے گا؟ کون قوم کے سامنے سچ رکھے گا؟ کون ملک کی لُوٹی ہوئی پائی پائی عوام کی فلاح و بہبود پر لگائے گا؟ کون اصلی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا؟ کون اپنوں اور غیروں کی تمیز کیے بغیر احتساب کرے گا؟

پاکستان میں جب بھی کسی کرپٹ شخص پر کوئی ادارہ ہاتھ ڈالتا ہے تو جو انکشافات ہوتے ہیں وہ اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر ایک انسان کو دولت کی اس قدر بھوک بھی ہو سکتی ہے۔ پچھلے چند برسوں کی ہی بات اگر لے لی جائے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کو کس طرح بے دردی سے اور بے رحمی سے لُوٹا گیا ہے۔ کس نام سے گننا شروع کیا جائے؟ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ ہر پکڑے جانے والے سے لاکھوں کروڑوں نہیں، اربوں کھربوں کا مال و دولت برآمد ہوا۔ مگر لالچ اور ہوس انسان کی ضرورت میں نہیں فطرت میں شامل ہوتی ہیں۔

پاکستان میں دراصل سیاست اور عہدے صرف دولت اکٹھی کرنے کی نیت سے لیے اور کیے جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان پر قرضوں کی گنتی کرنے بیٹھیں تو اتنے ہندسے ہیں کہ گِنے بھی نہیں جاسکتے۔ مگر پکڑے جانے والے اشخاص یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ انہوں نے اتنی ساری دولت کہاں سے اکٹھی کی؟

ہمارے ہاں سیاستدان فوج کو برا بھلا کہتے ہیں کہ ملک کا سارا بجٹ تو دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے جبکہ فوج اور عوام، سیاستدانوں کو ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اب حقیقت کیا ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے! مگر ایک بات اہم ہے کہ اگر پاکستان کی افواج کمزور ہوتیں تو خدانخواستہ ملک کا وجود خطرے میں ہوتا اس لیے دفاع کے لیے ایک خاص بجٹ تو ہر صورت درکار ہے۔ لیکن باقی کے بجٹ کا کون حساب دے گا؟ اتنی بھاری مقدار میں بیرونی قرضے آخر کہاں خرچ ہوئے؟ کون سی سہولیات اور آسانیاں عوام کے حصے میں آئیں؟ کون سے سرکاری ادارے منافع بخش بن گئے؟ جس ادارے کا نام لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ بھی خسارے میں ہے اور حکومت اسے چلانے کے لیے سالانہ اربوں روپے قومی خزانے سے دیتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ کیا تمام سرکاری ادارے سیاسی حکومتوں کے پاس نہیں ہوتے؟ کیا ان میں ناجائز بھرتیاں اور ترقیاں سیاستدان خود نہیں کرواتے؟ کیا بڑے بڑے پروجیکٹس پر کمیشن اور کِک بیکس انہی سیاستدانوں کے فرنٹ مین نہیں لیتے؟

جب ان سب چیزوں کا تمام اداروں کو بخوبی علم ہے تو پھر کیوں قومی مجرموں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا؟ کیوں کسی کرپٹ کو دوبارہ ملک کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے؟ کیوں ریاست طاقت کے ساتھ اپنے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتی؟ کیا ریاست اس قدر کمزور ہے کہ کوئی بھی ایک خاص شخص کسی بھی وقت ریاست سے بالاتر ہو جاتا ہے؟ پاکستان کے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مجرم سیاستدان ہے یا بیوروکریٹ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments