بادشاہوں کا کلام اور دو ٹکے کا بندہ


کلام الملوک ملوک الکلام ہوتا ہے یعنی بادشاہوں کا کلام بھی بادشاہ ہوتا ہے۔حکمرانوں کے لبوں سے پھسلے ہوئے کلمات بلند پایہ اور ارفع ہوتے ہیں اور ان کے معانی و مفاہیم کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اب حکمرانوں کے ارشادات و فرمودات کچھ ایسے عام فہم تو نہیں ہو سکتے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اٹھ کھڑا ہو اور دعویٰ کر ڈالے کہ جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ اس کی بدھی اور عقل میں سما گیا ہے اور وہ اس کے معنی و مطلب سے کماحقہ واقف ہو چکا ہے۔ اگر ہر ایک خاک نشین اور بوریا نشین یہ کہے کہ بادشاہ وقت کے منہ سے نکلے ہوئے ہر کلمے کو وہ بخوبی سمجھ چکا ہے تو پھر یہ “کلام الملوک” تو نہ ٹھہرا۔ اگر ہر گانا ماجھا، جمن،گل خان یہ دعویٰ کر ڈالے کہ اسے حکمران وقت کی کہی ہوئی بات کی مکمل سمجھ کے تو پھر ایسا کلام “ملوک الکلام” تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے حکمران جب تقریروں میں دعوؤں کے ذریعے سنہرے سپنے دکھاتے ہیں تو ہر پاکستانی یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ حکمران جو کہہ رہے ہیں وہ ان کی عقل میں صحیح طور پر بیٹھ چکا ہے اور وہ اس کے مطلب و معنی وہی ہیں جو بظاہر الفاظ میں سے جھلکتے ہیں۔ یہیں سے معاملہ بگڑتا ہے۔ عام افراد ظاہری مطلب و معنی کا فہم و ادراک ہی رکھتے ہیں جب کہ حکمرانوں کے ادا کردہ لفظوں میں پنہاں معنی و مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت سے عام افراد محروم ہوتے ہیں اور پھر منہ اٹھا کر حکمرانوں کو کوسنے دینے لگتے ہیں۔

 مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انتخابی منشور میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ بھرے جلسوں میں انہوں نے ان تین بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کے دھواں دار وعدے کیے۔ پاکستانی عوام نے اپنے روایتی بھولے پن میں سمجھ لیا کہ ہر فرد کو روٹی، کپڑے اور مکان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ بھٹو صاحب کے اس وعدے کے لفظی معنوں پر اگر عوام نے یقین کر لیا تھا تو اس پر بھٹو صاحب کو قطعی طور پر دوش نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کلام الملوک تھا جس کے لفظی معنی ہی عوام سمجھ پائے۔ بھٹو صاحب سے لے کر بلاول بھٹو زرداری جب روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرتے ہیں تو عام فرد اس کے لغوی معنی سمجھ کر اس کو یقین کر لیتا ہے۔ جب یہ وعدے پورے نہیں ہوتے تو منہ آٹھ کر بیچاری پیپلز پارٹی کو بے نقظ سنا دیتا ہے۔

اپنے لاہور والے شریفوں کو ہی لے لیں۔ عوام کی کج فہمی نے ان شریفوں کو بھی غلط جانا۔ انہوں نے جب وعدے اور نعرے لگائے تو عوام ان کے لغوی معنوں پر یقین کر بیٹھے۔ ان کے لا تعداد وعدوں اور نعروں کی دیگ میں سے نمونے کے طور پر صرف پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا نعرہ ہی لے لیں۔ اس وعدے کے لغوی معنوں کو لے کر عوام ان کو کوستے ہیں کہ ملک ایشین ٹائیگر تو خاک بنا اس کہ بجائے اندرونی و بیرونی قرضوں اور بے پناہ معاشی مسائل میں ایسا الجھا کہ آج تک اس سے باہر نہیں نکل سکا۔ عوام کی اس کوتاہ بینی پر سوائے کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو لغوی معنوں کے گھن چکر میں الجھ کر اس کے اندر پنہاں ان معنوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو کلام الملوک کا خاصہ ہے۔

جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کا ذکر اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کے پاس جب عوام کی جانب سے عطا کردہ پروانہ حکمرانی ہی نہیں تھا تو اب غاصبوں کا ذکر کر کے کیوں قلم کی سیاہی کو ضائع کیا جائے۔

موجودہ حکمران جب سے برسر اقتدار آئے ہیں عوام اپنی کج فہمی کی بناء پر مسلسل ان کا ٹھٹھا مذاق بنا رہے ہیں۔ عام افراد کس بنا پر موجودہ حکمرانوں کو تضحیک و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ تو وہی ان کی کوتاہ نظری ٹھہری جس کا ہدف ہر حکمران بنا۔ عوام کی سادہ لوحی کہیں یا پھر ان کی بے وقوفی کہ وہ حکومت کو وعدے پورے نہ کرنے کی پاداش میں ہدف تنقید بنا رہے ہیں حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد وعدے پورے نہ کرنے کی گتھی سلجھا دی تھی۔ جب انہوں نے یو ٹرن لینے کو ایک خوبی سے تشبیہ دیا تھا تو عوام کو اس وقت ہی کم علمی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر حکمرانوں کے کلام کے اسرار و رموز سے آگاہی ہو جانی چاہیے تھی لیکن عوام نامی ٹولہ کب اتنا رمز شناس ٹھہرا کہ اسے اس فرمان کی اصل روح سے آگاہی ہوتی۔ اگر خان صاحب نے الیکشن سے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی تو ترجیح دی تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ آئی ایم ایف کے دروازے پر جا دھمکے تو بظاہر یہ آپ کو مکمل طور پر یو ٹرن لگے گا لیکن اصل میں یہ رمز کی بات ہے جس کا ادراک صرف حکمرانوں طبقے کو ہے۔ اگر خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے مہنگائی کو حکمرانوں کی کرپشن کا نتیجہ قرار دیتے تھے اور آج ان کی دور میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور عوام نے اس پر رونا پیٹنا شروع کر دیا ہے تو ان نادانوں کو کون سمجھائے کہ ان کے ماضی کے بیانات اور حال کے اقدامات میں تفاوت اسرار و رموز کے دبیز پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اب تازہ تازہ خان صاحب کا بیان قوم کی سماعتوں کے آر پار گزرا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ کسی کو اندازہ نہیں پاکستان کتنا عظیم ملک بننے جا رہا ہے، دیکھتے دیکھتے مہینوں اور سالوں میں یہ ملک تبدیل ہوگا، لوگ دوسرے ممالک سے نوکریاں ڈھونڈنے یہاں آئینگے۔ عوام نامی مخلوق جن کا عقل و ادراک سطحی ہے اور حکمرانوں کے فرمان عالی شان کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے اس نے ایک بار پھر اس بیان کا ٹھٹھا مذاق بنانا شروع کر دیا ہے۔ ان کے بقول یہاں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں اور وہاں حکمران نوکریوں کے دریا بہانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اب ان ناہنجاروں کو کون سمجھائے کہ یہ رمز کی باتیں ہیں، رمز والے ہی جانیں۔ گلی کی نکڑ پر پان کے کیبن پر بیٹھا شخص جب پان چباتے یہ کہتا ہے کہ حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے تو ماں قسم اس شخص پر بڑا غصہ آتا ہے کہ سالا دو ٹکے کا بندہ ہو کر حکمرانوں پر تنقید کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments