ہم اتنے منافق کیوں ہیں؟


ایک ہی دن میں دو ایسے حادثے ہوئے کہ دماغ جھنجھنا اٹھا۔ صبح میں میرے دوست حافظ صاحب باتوں باتوں میں فرمانے لگے کہ ان کے سنی اکثریتی محلے میں شیعوں نے امام باڑہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن سنیوں نے بروقت روک دیا۔ حافظ صاحب بظاہر مسلکی عصبیت میں مبتلا نہیں لگتے، البتہ بنام مذاق شیعوں کو چڑانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ میں نے جو امام باڑہ نہ بننے دینے والی بات سنی تو جسم میں خون کی رفتار ہرن کو مات دینے لگی۔ میں نے جل بھن کر کہا کہ اگر کسی ہندو اکثریتی محلے میں مسلمانوں کو مسجد نہ بنانے دی جائے تو تم لوگ کو بہت آگ لگتی ہے اور جہاں تم کثرت میں ہو وہاں شیعوں کے مذہبی مرکز کی تعمیر رکوا دینے کو بڑی بہادری کہ رہے ہو؟ میرے غصہ ہونے پر حافظ جی ہنسنے لگے۔ خیر ہم دونوں ہی اپنے اپنے دفتری کام میں لگ گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔

شام کو گھر پہنچا تو چاچا آئے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد باتوں کی گٹھڑی کھلی۔ چاچا بتانے لگے کہ ہماری شیعہ اکثریتی بستی میں جب سنیوں نے خلفائے راشدین کی شان میں مشاعرہ کرنے کا فیصلہ کیا تو بستی کے کچھ شیعہ اکابرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ مشاعرہ رکوایا کیسے جائے؟ چاچا کی اس بات نے دماغ کے تار پھر سے چھیڑ دیے۔ حافظ جی والی بات سن کر جو حالت ہوئی تھی وہ پھر سے طاری ہونے لگی۔ میں نے تلملا کر پوچھا کہ اگر بستی میں سنی زیادہ ہوتے اور وہ شیعوں کو مجلس نہ کرنے دیتے تو کیسا لگتا؟

ان دو واردات نے ایک بات ظاہر کر دی۔ ہر چند کہ مسلکی اختلاف ہماری رگ رگ میں گھل چکے ہوں لیکن ذہنیت کے معاملے میں ہم لوگ بطور امت بلا تفریق مسلک ایک پیج پر ہیں۔ جب اپنی مسلکی شناخت کو assert کرنے کی بات آتی ہے تو ہم لامحدود حقوق پانا چاہتے ہیں مگر جب دوسرے مکتب فکر کے لوگ اپنی شناخت پر اصرار کرتے ہیں تو ہمارا دل تنگ ہو جاتا ہے۔

بات چلی تو یاد آیا کہ ہماری مذہبی تقریبات میں جب غیر آتے ہیں تو ہماری مسلکی انانیت کو بڑا سکون ملتا ہے لیکن اگر ہمارے میں سے کوئی کسی غیر مسلک کی تقریب میں جاکر اظہار عقیدت کر آئے تو ہمیں اس کے ایمان پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ موبائل کھنگالئے تو بہت سے بھائیوں کے موبائل میں وہ ویڈیو مل جائے گی جس میں اداکارہ سشمیتا سین سورہ والعصر پڑھ کر سنا رہی ہیں۔ دوستوں کو وہ ویڈیو دیکھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ یہی دینی غیرت اس وقت کیا رنگ دکھاتی ہے جب کوئی مسلمان ہولی کھیلتا نظر آتا ہے؟

محرم کے ماتمی جلوس نکالنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے جلوس بستی یا شہر کے ہر دروازے کے سامنے سے گزر جائیں لیکن اگر مدح صحابہ کے جلوس پر ان کے دل ٹٹولے جائیں تو اس کے بارے میں یہی خواہش دبی ملے گی کہ یہ جلوس نہ ہی نکلیں تو اچھا ہے۔ ادھر عزاداری کو بدعت ماننے والے مسلمان دوست غیر مسلموں کی شوبھا یاترہ کو دیکھ کر اتنے برافروختہ نہیں ہوتے جتنا ماتمی جلوس کو دیکھ کر ان کا خون کھول جاتا ہے۔

مغربی ممالک میں رہنے والوں کی آخرت سدھارنے کے لئے تبلیغی جماعت والے ان ملکوں میں خوب چلے لگاتے ہیں۔ شیعہ بھی ان ملکوں میں محرم کے جلوس دیکھ کر خوب مطمئن ہوتے ہیں لیکن تصور کیجئے کہ اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں کے تبلیغی مشن کو کیا ہم اتنی رسائی دینا چاہیں گے؟

غیر مسلم جب ہمیں دیکھ کر آداب کہتا ہے تو ہمارا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم ہمیں سلام کرلے تب تو کیا ہی کہنے لیکن اکیلے میں ہمیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ مسلمان خدا حافظ کیوں کہتے ہیں اللہ حافظ کیوں نہیں کہتے؟ ہرچند کہ خدا سے مراد اللہ ہی ہوتا ہے لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ اس خدا کہنے میں ضرور کوئی جھول ہے۔

مذکورہ صورتوں میں خرابی یہ ہے کہ ہم اپنے لئے ایک اصول چاہتے ہیں اور دوسرے کے لئے کسی اور بات کے خواستگار ہیں۔ کسی نے سیدھا سا اصول بیان کیا ہے کہ دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے چاہتے ہو۔ میں اس بات پر تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علما جیسی تنظیموں کا بعض معاملات میں موقف حیرتناک ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کا واضح موقف ہے کہ سیکولرزم غلط ہے اور پاکستان میں مذہبی قوانین نافذ ہونے چاہئیں۔ ان تنظیموں کو جمہوریت میں شر نظر آتا ہے اور اسلامی طرز حکومت ان کا خواب ہے۔ اب ذرا دیکھئے کہ بھارت میں یہی جماعت اسلامی اور جمعیت علما سیکولرزم کی حمایت میں تقریریں کرتے نہیں تھکتے۔ یہاں ان جماعتوں کے خیال میں جمہوریت کا تحفظ کرنے میں جان بھی لڑا دینی چاہیے۔

اب ذرا اس بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ مطلب یہ ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں سیکولرزم یعنی مساوات ہونی چاہیے اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں سیکولرزم کا نام بھی حرام قرار پایا۔ جہاں ہم اقلیت میں ہوں گے وہاں جمہوریت ہمیں محبوب ہے کہ اس میں سب شہری برابر ہیں۔ البتہ جہاں ہم اکثریت میں ہوں گے وہاں ہمیں اسلامی طرز حکومت چاہیے جس میں بقول ڈاکٹر اسرار احمد غیر مسلم حضرات کو دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔

بات طویل ہوئی جاتی ہے لیکن ذکر نکلا ہے تو کہے دیتا ہوں کہ میانمار میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر پوری امت اشکبار رہی لیکن وہی آنکھیں اس وقت سوکھی نظر آئیں جب یمن میں مسلسل پانچ برسوں سے آبادیوں پر سعودی عرب کے بم برستے رہے۔ جنازے سے لے کر بارات تک میں شامل دسیوں ہزار یمنی شہری سعودی کارروائی کی وجہ سے جان سے گزر گئے لیکن ہم تھے کہ منہ دوسری طرف کیے رہے۔ سعودی عرب کی کارروائی پر اگر کوئی نالاں تھا تو شیعہ تھے لیکن یہ کیا کہ جب ایران کی حمایت سے شامی فوج بغاوت کچلنے کے نام پر عسکری مہمات میں لگی تھی اس وقت شیعوں نے دوسری طرف منہ کر لیا اور عام شہریوں کی ہلاکت پر یوں چپ سادھ لی جیسے امت نے یمنیوں کی موت پر اختیار کی تھی۔ ہاں، شام کے معاملے میں وہی امت پھر اشکبار ہو گئی۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے لئے آئیڈیل سماج کے متمنی ہیں، دوسروں سے احترام و رواداری کی توقع رکھتے ہیں اور اپنے لئے ہر ممکن حقوق چاہتے ہیں لیکن جب بات دوسرے کی آئے تو ہمارے دل چھوٹے پڑ جاتے ہیں، آنکھوں پر تفریق کی عینک چڑھ جاتی ہے اور ہمیں دوسروں کے ساتھ کی گئی معمولی رواداری بھی احسان کی طرح لگتی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ متعصب طبقوں سے مل کر بننے والے سماج میں باہمی احترام کی قدر ناپید ہو جاتی ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments