فیض امن میلہ اور انقلاب کا منجن


میں اتوار کے روز فیض امن میلے میں شریک ہوا اور ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی اس میلے میں انقلاب کا راستہ ہموار کرنے اور جاگیرداری کلچر کے خاتمے کے لیے لمبی لمبی تقاریر کی گئیں۔ ایک سیشن انتہائی اہم تھا جس کی وجہ سے مجھے وہاں کچھ دیر رہنا پڑا وہ سٹوڈنٹس یونین پر مکالمہ تھا جس میں ان تمام طلبا کو اکٹھا کیا گیا جنہوں نے نومبر میں سرخ انقلاب کی بات کی تھی اور پھر ہم نے دیکھا کہ انقلاب کی یہ لہر مختلف شہروں میں پہنچی جہاں طلباء نے اپنے حق کے لیے نہ صرف تقاریر کیں بلکہ ریاست اور ریاست اداروں کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی جو یقینا ایک ناقابلِ ستائش عمل تھا۔

میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ کیا انقلا ب ہمیشہ ریاستی اداروں کے خلاف احتجاج اور نعرے بازی سے ہی آتا ہے یا اس کا کوئی اور راستہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم تو اسے انقلاب سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی ذہن سازی کی جائے ’انہیں تعلیم اور شعور کی جانب لایا جائے مگر پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر الیکشن میں انقلاب کا منجن بیچ کر ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ آج جو نعرہ اور جس حق کی بات بائیں بازو کے لوگ کر رہے ہیں یہ نعرہ ہر پانچ سال بعد پاکستان میں لگایا جاتا ہے مگر آج تک اس پر نہ عمل ہوا اور نہ ہی ممکن ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جو ریاست کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کے ساتھ انتہائی مخلص ہے حالانکہ محبِ وطن ہمیشہ امن اور اخوت کی بات کرتا ہے۔

سٹوڈنٹس پینل ڈسکشن میں جس طرح ریاست کے خلاف جملے بازی کر رہے تھے اس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ ان کے اندر اس ریاست اور ریاستی اداروں کے بارے شدید غم و غصہ ہے اور وہ یہ غصہ سخت جملوں سے نکال رہے تھے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک کالم ”کیا ایشیا سرخ ہو گا“ لکھا تھا جس میں اس نقطہ نظر پہ انتہائی کھل کر بات بھی کی تھی کہ انقلاب کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ ہم ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور ملک میں ایک لبرل کلچر کی ڈیمانڈ کریں۔

خواتین جس آزادی کی بات کر رہی ہیں اور اپنا موازنہ مغرب کے ساتھ کر رہی ہیں تو کیا انہیں لگتا ہے کہ مغرب نے عورت کو آزادی دی ہے؟ جو آزادی مغرب نے دی ہے یقین جانیں اگر اس ملک میں دی جائے تو یہ عورتیں خود بھی کبھی برداشت نہ کرنے پائیں۔ ایک طالبہ انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے کہنے لگی ”کہ ہمیں کہا جاتا ہے کھانا گرم کر کے دیں ’تو کیوں ہمارے مرد خود کھانا نہیں گرم کر سکتے؟ ہم پہ کیوں پابندی ہے“ یعنی اس ملک کانام نہاد انقلابی‘ سرخ اور لبرل طبقہ ہماری نوجوان نسل کی کس طرح ذہن سازی کر رہا ہے اس کا اندازہ اس میلے میں جا کر ہوا۔

جہاں تک طلبا یونینز کی بحالی اور طلبا کے حقوق کی بات ہے تو وہ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں حقوق ملنے چاہیے۔ جامعات اور تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کے زیر اثر پلنے والی یونینز کو ختم کر کے ان یونینز کو بحال کیا جائے جو حقیقت میں طلبا حقوق کی بات کرتی ہیں مگر ہم اس بات کے کبھی بھی حامی نہیں رہے کہ طلبا کو استعمال کر کے نہ صرف ریاست کے خلاف ان کی ذہن سازی کی جائے بلکہ انہیں بغاوت پر اکسایا جائے۔

فیض نے امن کی بات کی ہے مگر فیض نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ملک کی نوجوان نسل کو ہی ملک کے خلاف استعمال کیا جائے۔ کیا اچھا ہوتا کہ اس امن میلے میں فیض کے فکرو فن پہ کوئی پرمغز مکالمہ ہوتا اور فیض شناسوں کو مدعو کر کے اس پر بات کی جاتی۔ عجیب صورت حال ہے کہ دائیں بازو والے اپنا منجن بیچ رہے ہیں اور بائیں بازو والے انقلاب اور بغاوت کا اپنا منجن بیچنے میں لگے ہیں۔ نہ کوئی ریاست کی بات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ریاست کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی بات کرتا ہے۔

اگر یہی نوجوان طبقہ اور یہی بائیں سیاست کے پیروکار ایک دفعہ بھی یہ سنجیدگی سے سوچ لیں کہ پاکستان اس وقت کس نہج پہ کھڑا ہے اور اس وقت ریاست کو انقلاب اور بغاوت کی نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کسی بہتر لائحہ عمل کی ضرورت ہے تو کبھی بھی قوم کو بتی کے پیچھے نہ لگائیں۔ مگر یہاں معاملہ ہی الٹ ہے ’ایک دن دائیں بازو والے سڑکوں پہ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ملک صرف مذہبی سوچ رکھنے والے دانشور ہی چلا سکتے ہیں لہٰذا عمران خان کو گھر چلے جانا چاہیے۔

دوسرے دن بائیں بازو کے دانشور سڑکوں پہ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ یہاں انقلاب آ جائے اور ریاست کے خلاف بغاوت شروع ہو جائے۔ تیسرے دن طلبا اٹھتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی تو ہم سے ہے لہٰذا یونینز بحال کریں ’الیکشن کروائیں اور لڑکیوں، لڑکوں کو لبرل ماحول دیں پھر دیکھیں کہ ملک کتنی ترقی کرتا ہے۔ چوتھے روز مزدور یونینز اور رکشہ یونینز کے لوگ سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اسی میں ہے کہ حکومت نچلے طبقے میں منتقل کر دی جائے کیونکہ حقیقی مسائل یہی سمجھ سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر آدمی ’ہر جماعت اورہر دانشور الگ الگ انقلاب کا منجن بیچنے میں لگا ہے اور قوم کو ”انقلابی ٹرک کی بتی“ کے پیچھے لگا دیا گیا ہے تو فیصلہ کیسے کیا جائے کہ کون حقیقی مسیحا ہے اور کون جگاڑو۔ یا پھر ایک آپشن ہے کہ مذکورہ لوگوں اور پارٹیوں کو ملک بانٹ دیں۔ خیرہر پانچ سال بعد یہی کام سیاست دان کرتے ہیں۔ گلی گلی اور گھر گھر جا کر کہتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ تو صاف پانی ہے‘ اصل مسئلہ تو صحت اور تعلیم ہے۔

اس ملک کا اصل مسئلہ تو معیشت اور خارجی و داخلی مسائل ہیں مگر جب منتخب ہو کر ایوانوں میں بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور کیچڑ اچھالنے کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پانچ سال گزرتے ہیں تو یہ دوبارہ سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور دوبارہ اسی انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے اور اس سادہ لوح قوم کو دوبارہ بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ غریب کے بچے کو تعلیم نہیں دی جارہی حالانکہ آج اکیسویں صدی میں یہ نظام بہت حد تک تبدیلی ہوا اور موجودہ حکومت اگرچہ ایک ناکام حکومت نظر آ رہی ہے مگر تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی کچھ نہ کچھ تو کوشش جاری ہے۔

میں اب بالکل بھی حکومت کا دفاع نہیں کر رہا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ہماری نئی نسل کو انقلاب کے نام پر جس طرح ٹریپ کیا جا رہا ہے اور مخصوص لبرل طبقے جس انداز میں نئی نسل کی ذہن سازی کر کے بغاوت پہ اکسا رہے ہیں یہ بہت نقصان دہ عمل ہے۔ کیونکہ یوں سرِ عام ریاست کو تنقید کا نشانہ بنانا اور نئی نسل کے ذہن میں ملک کے خلاف شدید نفرت پیداکرنا ہمارے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے، کاش ہم ان مسائل اور نقصانات کو جان سکیں۔

پاکستان اس وقت انتہائی برے حالات سے گزر رہا ہے لہٰذا اسے خارجی مسائل سے نمٹنے دیا جائے تاکہ داخلی حالات بھی بہتر ہو سکیں۔ یہ ملک ابھی اس چیز کا متحمل نہیں کہ خارجی مسائل کے ساتھ ساتھ داخلی بغاوتوں سے بھی نمٹ سکے سو حکومت کو موقع دیا جائے۔ باقی جہاں تک سوال ہے انقلاب کا اور فیض میلے کا تو یہ یقینا ایک اچھا سلسلہ ہے وہ چاہے جس طریقے سے بھی فیض کو اون کیا جائے مگر فیض پر مکالمے کی فضا بحال کی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments