ڈرامہ نگاری اور اتائی لکھنے والے


ڈرامہ نگاری فنون میں سے ایک فن ہے، جو سیکھا سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو نے ہزاروں سال پہلے ڈرامہ لکھنے کے اصول، کتاب کی شکل میں واضح کردیئے تھے۔ شاعری کے علاوہ ڈرامہ موجود تھا۔ جو تھیٹر کی شکل میں تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاعری، موسیقی و رقص قدیم ڈرامے کے لوازمات تھے تو غلط نہ ہوگا ان ہی فنون نے ملکر نثر کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ ادب کی صورت، صدیوں کا سفر طے کر کے ادب کو دنیائے ادب بنا کر خود اس کی شاخوں میں تبدیل ہو گئے۔ دنیا میں ادب کی تمام شاخیں تعلیم و تربیت کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ سیکھی جاتی ہیں۔

پاکستان میں تھیٹر ڈرامہ اتائیوں کے ہاتھ کم ہی لگا، منگلش، اسٹیج شوز و اسٹینڈ اپ اور عامیانہ مزاح نے معیاری تھیٹر کی مارکیٹ خراب ضرور کی۔ پر جلد یہ شوز اتائی و عامیانہ پن کا شکار، عامیانہ ویلو و خراب مارکیٹ بنا کر اپنے انجام کو بھی پہنچ جاتے ہیں۔

ٹی وی ڈرامے میں اتائی لکھنے والوں کی اس دہائی میں چاندی ہوگئی خاص کر اس موجودہ دہائی میں۔ اتائی معالج تو جلد یا بادیر لوگوں کے عتاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ (حالانکہ لوگوں کی زندگی اور پیسہ لوٹنے پر اسے عمر قید ہونا چاہیے۔ ) تو اتائی لکھنے والے جو لوگوں کی عقل کو گھن لگا رہے ہیں، ان کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ وہ عتاب سے بچے کیوں رہتے ہیں۔

عقل و صحت دونوں انسان کے لئے ضروری نہیں ہیں کیا؟ یا عقل کی اہمیت، صحت و تندرستی سے کسی طور کم ہے؟

اتائی معالج سے جان چلی جائے تو لوگ اس کی جان لینے کے در پہ ہوتے ہیں اور دہنی تفریح و طبع کے نام پر گھٹن، فرسودگی، غیر معیاری مواد، لڑائی جھگڑے اور تشدد کو دماغ میں انڈیلنے اور گھن لگانے پر؟ لوگ خاموش۔

احتجاج تو بنتا ہے جب ذہنی گراوٹ اور تشدد کو شدت سے پاکستانی ڈرامہ بنا کر ناظرین پر لاد دیا جائے۔

اس غیر معیاری مواد کو کبھی چینلز مالکان کے حصے میں کبھی پیسہ لگانے والے کے کھاتے میں ڈال کر اتائی ہاتھ جھاڑ کر اپنا دامن بچا جاتے ہیں۔ پکڑائی میں آجائیں تو کبھی ناول، کبھی معاشرے اور کبھی جب کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو ماس (عوام الناس) کا رونا رونے لگتے ہیں۔

چاہے یہ اس کو ریٹنگ کا نام دیں یا موجودہ دور کا تقاضا کہہ دیں، عورت ایمپاورمنٹ بنا دیں (مرد کون سا مختلف لکھ رہے ہیں ) تب بھی اتائی پن سے بچ کر نہیں نکلتے ان کو آگے کرنے میں ایک عمل کارفرما ہے جو میں آخر میں لکھوں گی۔

پہلے ایک سرسری موازنہ اتائی پن اور ڈرامے کی طوالت پر، اقساط کی شکل میں کرتے ہیں۔

ترک تاریخی کھیل؛ ارطغرل (اقساط 150۔ بحوالہ۔ 2014 )

ترکی میں ارطغرل نے کیسے عثمانیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ پوری تاریخ ایک سو پچاس اقساط میں موجود ہے۔

150 اقساط میں پاکستانی سوپ کی کہانی۔ لڑکی کی شادی طلاق۔ شادی۔ طلاق۔ شادی طلاق۔ ساس، بہو، لڑائی۔ طلاق۔ شادی۔

اس پر بھی بڑی مشکل سے یہ سوپ اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اقساط پر مبنی فرق پر، ایک طرف تاریخ ہے اور دوسری طرف وقت کا ضیاع۔

(جبکہ یہ وہ معاشرہ ہے جو مرد کو دوسری شادی کرنے پر لعن طعن کرتا ہے اسے میں لڑکی کی اتنی شادیاں اور طلاقیں؟ محض اتائیوں کے قلم کی نشاندہی کرتا ہے اور کچھ نہیں۔ ) ۔

یہ ڈرامہ نہیں ہے۔

ترکی ڈرامے کی مثال اس لئے لی ہے کہ ہماری تاریخ، روایات مذہبی بنیادوں پر ایک ہیں۔ جو اسلام بھی کہتا ہے یعنی طرز معاشرت۔ آپ خطے کی تاریخ تک کیوں محدود ہونا چاہتے ہیں جبکہ اپ کی تاریخ و روایات، ادب وسیع تر ہیں۔

یہ بھارتی ڈراموں اور فلموں کی چربہ کاپی کی لاجک کا کہ ”ہمارا رہن سہن ملتا ہے، ادب ایک ہے“ انتہائی معقول جواب بھی ہے۔

ارطغرل اسی دہائی کا بنا ہوا ڈرامہ ہے، پی ٹی وی کے تاریخی کھیلوں کا حوالہ اسی لئے نہیں دیا۔ وہ آج کی نسل کے دیکھے ہوئے بھی نہیں ہیں پھر پرانے کہہ دیے جاتے ہیں۔ یہ دوسرا جواب، ”موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے“ کے رونے کا ہے۔

اتائی لکھنا اور ڈرامہ نگاری میں زمین آسمان کا موازنہ نہیں ہوسکتا کہ ڈرامہ یا تو ہے یا نہیں ہے اس کے درمیان کچھ نہیں۔ ڈرامے نگاری کا فن خداداد ہوسکتا ہے لیکن صلاحیتوں کو نکھارنے کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔ پیسہ آنے سے ہر ایک آئے گئے کو اپنے اندر لکھنے کے وصف، خاص طور سے ٹی وی ڈرامہ لکھنے کی صلاحیت خداداد طریقے سے نظر آنے لگیں اور بس۔

میں بات دو دہائیوں تک رکھنا چاہتی تھی لیکن ڈرامہ متن اور معیاری ہونے کی ایک مثال نوے کی دہائی کے کھیل کی دیتی ہوں اقساط کے حوالے سے بھی یہ مثال بہترین ہے اور مقبولیت کے حوالے سے بھی۔

الفا براوو چارلی ( 14 اقساط) میں انتہائی خوبی و خوش اسلوبی سے عسکری ادارے کی کارکردگی و ذمے داریوں کو پورے ڈرامائی بڑھت و رچاؤ کے ساتھ تشکیل دیا گیا۔ آج تک عوام میں مقبول ہے۔ (عوام الناس نے دیکھا ہے۔ ) صرف چودہ اقساط میں۔ نہ وقت کا ضیاع نہ غیر معیاری نہ ذہنی کوفت۔ موضوع منفرد اور مشکل بھی۔

ایسے ناظرین کو جو ڈرامے کا ذوق رکھتے ہیں معیاری کھیل دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں ان کو بھیڑ بکری یا گدھا سمجھنا ذہنی فتور ہے اس سے کم کچھ نہیں۔ ( میں نے یہاں ادبی ذوق رکھنے والوں کی بات نہیں کی۔ صرف ذوق و شوق رکھنے والوں کی بات کی ہے۔ اتائی تو ان کو کچھ نہیں دے سکے، ادبی ذوق کی لطافتوں کو کیا پورا کریں گے! )

تو جو اتائی لکھ رہے ہیں اور جو ناظرین کو چوپایہ بنا کر اتائیوں کے گرد ہی منڈلاتے ہیں اصل میں ذہنی فتور میں مبتلا ہیں۔ ان کی ذہنی نشونما میں نہ ذوق ہے نہ ادب۔

یہاں یہ کہنا کہ ان کی نوکری اور موضوع بحوالہ عورت ان پر دباؤ و مجبوری ہے انھیں ان کی ذہنی پستی، کم مائیگی، کم علمی، ناقص سوچ، نا اہلی سے نجات نہیں دلاتی۔ یہاں یہ سارا ملبہ سرمایہ دار یا چینلز کے مالکان پر ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اچھے معیاری ڈرامہ چلانے والے بھی یہی چینلز ہیں۔ تو پھر معیاری کام ڈھونڈنا کس کی ذمہ داری ہے؟ مالکان نے تو ان کی ذمہ داری لگائی ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ، جس کے پلے جو ہے، وہ وہی تو دے گا!

پہلے معیار گرنے کا رونا پرائیوٹ چینلز کے متھے مار دیتے تھے، اجکل چینلز کی افراط پر مارتے ہیں۔

اگر چینلز کی بہتات ہے تو چینلز کو دوسرے سبجیکٹ دیں ڈرامہ یا نیوز ہی کیوں! یہ کام سرکار بخوبی کر سکتی ہے۔

دہقانی ادب، عورت اور ٹکے کے ناول سے بھی اتائیوں کو بڑا افاقہ ہوا ہے، کچھ لکھنا ہی نہیں پڑتا۔

میں ڈرامہ نگار اور ان کے ڈرامے کو دوسرے مضمون کے لئے اٹھا کے رکھ رہی ہوں۔ جہاں دہقانی ادب اور ناول کا سلسلہ بھی جڑتا ہے۔

اب ان دو دہائیوں میں پاکستانی ڈرامہ ماسوائے انتہائی چند کے وہ جناب والا ہیں جو کب کے ان ہی اتائی لکھنے والوں کے ہاتھوں مر چکا۔ لیکن مسالہ تیار کرنے والے، مرے ہوئے ڈرامے کو ممی بنا کر حنوط کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چاہتے ہیں یونہی ماحول بنا رہے اور یہ ممی کو اوپر بتائے ہوئے اجزاء سے مسالہ لگاتے رہیں۔

یہ بھی ایک گروہ ہے جہاں بھی ہو اپنے جیسے فرد و گروہ کو ڈھونڈ لیتا ہے، ایک دوسرے کی حمایت ان کی اولین ترجیح ہے۔

بقول ابن العربی۔ ”کوا کووں میں جاتا ہے اور شاہین۔ شاہینوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے۔ میرا کام صرف اتنا ہے کہ ان کی پہچان کراوں، ۔ “

میں ابن العربی کی اس پہچان پر یقین رکھتی ہوں۔ آپ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments