ممبئی پولیس کے سابق کمشنر راکیش ماریا کی آپ بیتی میں اجمل قصاب کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات


ممبئی پولیس کے سابق کمشنر راکیش ماریا نے اپنی آپ بیتی میں 26 نومبر 2008 کو بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے کردار اجمل قصاب کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں ۔ راکیش ماریا کے مطابق پاکستان مین سازش کرنے والوںنے 26/11 حملوں کو ہندو دہشت گردی کی شکل دینے کی سازش تیار کی تھی۔ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ نے اور اس سازش میں شریک دوسرے دوسرے اداروں نے اجمل قصاب سمیت سبھی 10 حملہ آوروں کو فرضی شناختی کارڈ کے ساتھ ہندو بنا کر ممبئی بھیجا تھا ۔

ان 10 حملہ آوروں میں صرف اجمل قصاب کو ہی زندہ پکڑا جا سکا تھا۔ پولیس کو اس کے پاس سے بنگلورو کے رہنے والے کسی سمیر دنیش چودھری کا فرضی آئی کارڈ بھی ملا تھا۔ ہندو نظر آنے کیلئے اجمل قصاب نے اپنے دائیں ہاتھ پر کلاوا بھی باندھ رکھا تھا۔ پولیس کی جانب سے جاری اجمل قصاب کی تصویر میں کلاوا دیکھا جاسکتا ہے ۔

ممبئی پولیس کے سابق کمشنر راکیش ماریا نے اپنی کتاب لیٹ می سے اٹ ناو (Let me say it now) میں دعوی کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم ممبئی حملوں کو ہندو دہشت گردی کی شکل دینا چاہتی تھی ۔ قصاب کے پاس سے ہندو لڑکے کا آئی کارڈ ملنے کے بعد کئی نیوز چینلوں نے اس آئی کارڈ میں دئے گئے ایڈریس پر کوریج بھی کی تھی۔ پھر ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ حملہ آور کے پاس سے حیدرآباد کے ارونودئے کالج کا فرضی آئی کارڈ ملا تھا ۔ حالانکہ یہ سبھی رپورٹس گمراہ کن تھیں۔ دراصل اجمل قصاب پاکستانی پنجاب کے قصبے فرید کوٹ کا رہنے والا تھا ۔

راکیش ماریا نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اجمل قصاب ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں عجیب و غریب خیالات رکھتا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور مسجدوں میں تالے لگے ہوتے ہیں۔ لیکن جب اس نے لاک اپ میں پانچوں وقت کی نماز ادا ہوتے دیکھی تو حیران رہ گیا۔ یہ اس کے تصور سے باہر کی چیز تھی ۔

راکیش ماریا مزید بتاتے ہیں کہ جب مجھے قصاب کی اس سوچ کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے تفتیشی افسر رمیش مہالے کو ہدایت دی کہ وہ قصاب کو میٹرو سنیما کے پاس واقع مسجد میں لے جائے۔ وہاں کا نظارہ دیکھ کر قصاب سکتے میں آ گیا تھا ۔ لوگ پرامن طریقہ سے نماز ادا کر رہے تھے ۔

راکیش ماریا نے مزید لکھا ہے کہ اجمل قصاب ابتدائی طور پر صرف لوٹ مار کے لئے لشکر طیبہ میں شامل ہوا تھا۔ جہاد سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ اجمل قصاب اور اس کا دوست مظفر لال خان اپنی مالی حالت سدھارنے کیلئے لوٹ مار کرنا چاہتتے تھے اور اس مقصد کے لئے وہ ہتھیار چلانے کی ٹریننگ لینا چاہتے تھے۔

راکیش ماریا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اجمل قصاب کو زندہ رکھنا میری پہلی ترجیح تھی۔ اس دہشت گرد کے خلاف لوگوں میں غصہ عروج پر تھا۔ ممبئی پولیس محکمہ کے افسران بھی مشتعل تھے۔ پاکستان کے خفیہ ادارے اور دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کسی بھی قیمت پر اجمل قصاب کو راستے سے ہٹانے کی کوشش میں تھی، کیونکہ قصاب ممبئی حملے کا سب سے بڑا اور واحد ثبوت تھا ۔

یاد رہے کہ 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں 10 دہشت گردوں نے تین مقامات پر حملہ کیا تھا۔ ان حملوں میں 166 افراد مارے گئے اور سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ان دس حملہ آوروں میں صرف اجمل قصاب ہی زندہ پکڑا گیا تھا۔ اجمل قصاب کو 21 نومبر 2012 میں پونے کی یرودا جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments