عامر خاکوانی کا ”زنگار نامہ“


عامر ہاشم خاکوانی صاحب سے نسبت کے کئی پہلو ہیں، وہ ایک شفیق استاد، ایک خوبصورت لکھاری اور ایک نفیس انسان ہیں۔ ایک اور تعلق ان سے وسیب کا بھی ہے۔ ان کی تحریر میں موجود سرائیکی کی چاشنی اور حلاوت، وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کا کچھ نہ کچھ تعلق سرائیکی وسیب سے رہا ہو۔ جامعہ پنجاب میں کالم نگاری کی تدریس کرتے تھے اور انتہائی متانت کے ساتھ دقیق موضوعات کو بڑے سادہ اور آسان انداز میں سمجھانے کی کوشش کرتے تھے، کوشش کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ ان کے جامع علم سے انصاف شاید ہم نہیں کر پائے۔ اس سے پہلے ان کے نام سے واقف تھے اور اس زمانے میں روزنامہ ایکسپریس میں ان کے کالم پڑھتے تھے۔

ہمارے خاندان میں خوش قسمتی سے کتب بینی اور اخبار بینی کا رجحان تھا، اور ہم نے بچپن سے ہی اخبار اور چند برس بعد باقاعدگی سے کالم پڑھنے شروع کر دیے۔ اخبار بینی کے ان دو اڑھائی عشروں میں بہت کم کالم نگاروں نے اس طرح متاثر کیا ہے جیسے خاکوانی صاحب نے۔ آج ان کے کالم پڑھتے بارہ تیرہ برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے خاکوانی دائیں بازو کے نمائندہ ہیں، بکہ سینٹر رائٹ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس لئے کئی دفعہ ان کی باتوں سے اتفاق نہیں ہوتا، لیکن انداز تحریر ہمیشہ اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ ہم ایسے لوگ جو رائٹ اور لیفٹ کے درمیان بھٹکتے رہتے ہیں، وہ شاید کسی ایک مکتبہ فکر کی ہر بات کو قبول نہیں کر سکتے، اور شاید اسی وجہ سے کسی ایک مکتبہ فکر کی طرف لڑھک بھی نہیں سکتے۔

برادر عزیز عام خاکوانی کی تحریروں میں جو چیز سب سے متاثر کرتی ہے، وہ تحریر کی روانی ہے۔ بہت سے لکھنے والے تحریر کا کرافٹ بہتر کرتے کرتے اپنا اصل اسلوب کہیں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ خاکوانی اپنے فطری انداز میں بڑی روانی کے ساتھ اپنا مدعا بیان کر دیتے ہیں، اور تحریر کی پختگی بھی برقرار رہتی ہے۔ تحریر کی پختگی یقیناً وسیع مطالعے کی دین ہے، اور یہی چیز انہیں اردو کالم نگاروں کی نئی نسل میں ممتاز کرتی ہے۔

دوسری اہم چیز ان کا تجزیہ ہے۔ آج کل کے دور میں جب ہر دوسرا صحافی بزعم خود ”سینئیر تجزیہ کار“ بنا ہوا ہے، لوگ تجزیے کا مطلب ہی بھول چکے ہیں۔ ہماری نسل محترم ارشاد احمد حقانی، نذیر ناجی، صلاح الدین اور الطاف حسن قریشی کے کالم پڑھ چکی ہے۔ میرا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ اردو کالم نگاری میں کسی نے ارشاد احمد حقانی سے اچھا تجزیہ نہیں کیا۔ آج کے دور میں کسی بھی موضوع کی ہر ممکنہ جہت کو زیربحث لانے کے حوالے سے شاید ہی کوئی نام عامر خاکوانی سے بہتر ہو۔ بہت سے بڑے کالم نگار یقیناً ہیں، خاکوانی سے کہیں سینئیر اور ان میں سے کئی خاکوانی کے اپنے آئیڈیل بھی۔ لیکن ان کی زمین اور ہے۔ جیسے ہارون الرشید صاحب، اظہارالحق صاحب، ایاز امیر صاحب وغیرہ، لیکن ان کا انداز بالکل مختلف ہے۔

عامر خاکوانی کی نئی کتاب اس وقت میرے سامنے ہے، نام ہے ”زنگار نامہ“۔ اس کے بارے میں ہارون الرشید صاحب ایک خوبصورت کالم لکھ چکے ہیں۔ خود خاکوانی صاحب کے اپنے الفاظ میں کہ ہارون الرشید صاحب سے زیادہ فسوں خیز نثر لکھنا ممکن نہیں، تو ہما شما کے لئے کچھ کہنے لکھنے کی گنجائش زیادہ نہیں رہ گئی۔ زنگار نامہ میں شامل بیشتر تحریریں، بلکہ تقریباً سبھی ہم نے پہلے ہی پڑھ رکھی ہیں۔ لیکن کتاب کی شکل میں پڑھنا ایک مختلف تجربہ ہے۔ اور کتابی شکل میں تمام تحریروں کا ریکارڈ ہونا ایک اضافی فائدہ ہے۔

زنگار نامہ کے لئے کچھ لکھنے کی تحریک ہوئی تو فوراً ذہن میں پرانی یادیں فلیش بیک کی طرح تازہ ہو گئیں۔ خاکوانی صاحب کو پہلی دفعہ دیکھا تو ذہن میں موجود امیج سے کافی مختلف پایا۔ کالم کے ساتھ جو تصویر چھپتی ہے، وہ بیشتر لکھاریوں کی ہئیت سے انصاف نہیں کرتی۔ پہلی دفعہ دیکھا تو بہت مختلف لگے، وزن بہت زیادہ، جو اب تک ہے، لیکن چہرے پر ایک معصومیت، تازگی اور کسی تازہ شرارت کا عکس جیسے ہو۔

جاوید چوہدری میرے پسندیدہ کالم نگاروں میں سے ایک ہیں۔ بیس سے زیادہ برس ہو گئے ان کو پڑھتے، اور آج تک ان کا کوئی کالم نہیں چھوٹا۔ انہوں نے اردو کالمز میں ایک نئی صنف یا جہت کا اضافہ کیا۔ کہانی کے انداز میں لکھے گئے کالم، امید کا سبق دیتی تحریریں۔ (ان دنوں موٹیویشنل سپیکر یا موٹیویشنل تحریروں کا رواج نہیں تھا) ۔ ان برسوں میں میں نے دیکھا کہ کئی لکھنے والوں نے ان کی طرح کہانی کا تڑکا لگانے کی کوشش کی، لیکن بری طرح ناکام ہوئے۔ عامر ہاشم خاکوانی اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ ان کو اس انداز میں کالم لکھنے کا ٹاسک دیا گیا، جو شاید (میرے خیال میں ) ان کا فطری انداز بھی نہیں، لیکن اسی اخبار کے انہی صفحات پر انہوں نے کہانی جیسے انداز میں بھی کالم لکھے، تجزیے بھی کیے اور اپنی الگ شناخت بنائی۔

تجزیے کی جہاں تک بات ہے، آج کل بیشتر موضوعات سیاسی ہوتے ہیں۔ خاکوانی کی تحریک انصاف کے لئے ہمدردی، سپورٹ سب پر عیاں ہے۔ لیکن کئی دفعہ انہوں نے عمران خان کے غلط فیصلوں کے خوب لتے لئے، اور ایک ہمدرد کے طور پر بہتری کی تجاویز بھی دیں۔ یہ ان لکھاریوں اور اینکرز سے بہت مختلف اپروچ تھی، جو کسی ایک فریق کے حق یا مخالفت میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ نیوٹرل رائے دینے کا حق کھو دیتے ہیں، اور کبھی ذاتی عناد سے باہر نکل کر تجزیہ نہیں کر پاتے۔ مختلف واقعات اور ایشوز کو علیحدہ علیحدہ دیکھنا، اور ہر واقعے کا پچھلے واقعات کا تاثر لئے بغیر تجزیہ کرنا بھی خاکوانی کا ہی خاصہ ہے۔

ہمارے ہاں نظریاتی سیاست اور صحافت دونوں ہی دفن ہو چکے ہیں۔ رائٹ اور لیفٹ کا ایک خاص توازن معاشرتی فکر کی نمود کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیفٹ پوری دنیا میں ہی اپنا اثر کھو رہا ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ زوال شاید زیادہ ہے۔ اس وقت سیاست میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ کا مقابلہ ہے، دونوں ہی رائٹ اور سینٹر رائٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح صحافت میں بھی لیفٹ کی سوچ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں نظریاتی مباحث مشکل ہیں، بلکہ خواب سے دکھائی دیتے ہیں۔ دائیں بازو کے اس پھیلاؤ یا ترقی میں رائٹ کے لکھنے والوں کے لئے اپنی جگہ بنانا پہلے سے زیادہ مشکل ہے۔ عامر خاکوانی اس شعبے میں بھی کامران نظر آتے ہیں۔

عامر خاکوانی کی ایک اور کامیابی سوشل میڈیا کا پھرپور استعمال ہے۔ خوش قسمتی سے خاکوانی کی کالم نگاری اور سوشل میڈیا کا ظہور لگ بھگ ایک ساتھ ہی ہوا۔ بہت کم لکھنے والوں نے سوشل میڈیا پر اپنی جگہ بنائی۔ اور جو سوشل میڈیا پر لکھنے والے تھے، وہ پرنٹ میڈیا میں زیادہ تر ناکام ہوئے، اس لئے لحاظ سے خاکوانی اس محاذ پر بھی سرخرو ٹھہرے۔

کتاب کا سروق انتہائی دلکش ہے، پرنٹنگ بھی مناسب ہے، اور قیمت انتہائی کم۔ کتاب کے سروق پر لکھا ہے، ”تحریریں جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں“، گو حقیقتاً ایسا ہی ہے کہ یہ تحریرں آپ کے اندازِ زندگی کو بدل سکتی ہیں، آپ کے سوچنے کے انداز کو بدل سکتی ہیں اور بہتر انسان بنا سکتی ہیں، لیکن یہ فقرہ کچھ ”شاعرانہ تعلی“ جیسا لگا۔ غالب گمان ہے کہ یہ کتاب کے پبلشر کی تجویز ہو گی، کہ پبلشر کا بیک گراؤنڈ موٹیویشنل کتابیں چھاپنے کا ہے، جس پر عموماً ایسے ہی سلوگن لکھے جاتے ہیں۔ ان باتوں سے قطع نظر، یہ ایک شاندار کتاب ہے، جو قاری کو جینے کا نیا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ سب سے اہم بات شاید یہ کہ یہ تحریرں آپ میں برداشت پیدا کریں گی، دوسروں کا نکتہ نظر سمجھنے کی تحریک پیدا کریں گی۔

کتاب کا انتساب خاکوانی کی مرحومہ والدہ کے نام ہے، جن کا کچھ ہی عرصہ پہلے انتقال ہوا۔ خاکوانی نے ایک چھوٹے بچے کی طرح ماں کے بچھڑنے کا دکھ چند لفظوں میں سمو دیا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments