یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے


جب مادی دور کی لعنتوں نے معاشرتی زندگی میں زہر گھول دیا ہو۔ ہوس زر نے نوع انساں کو خود غرضی، انتشار اور بے حسی کی بھینٹ چڑھا دیا ہو۔ مسلسل شکست دل کے باعث بے حسی پیدا ہو چکی ہو۔ عادی دروغ گو اور سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا مخبوط الحواس درندوں نے رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آہیں بے اثر، آبادیاں پُرخطر، زندگیاں مختصر اور گلیاں خوں میں تر کر دی ہوں۔ تو ایسے حالات میں اگر کوئی فعال، مستعد اور بے حد زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے معاشرتی زندگی کے مسائل کو اس مہارت سے اپنی کہانیوں کا موضوع بناتا ہے تو وہ افسانہ نگار، قلمکار منیر احمد فردوس ہی ہے۔

جس نے اپنی گزشتہ کتابوں زندگی چہرہ مانگتی ہے، کینوس پر چھینٹے اور تازہ ترین کتاب ”یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے“ میں ہر قسم کے مسائل کو کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔ اگر ان کے تمام افسانوں اور کہانیوں کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منیر احمد فردوس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ عمیق ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کی بوقلمونی نظر آتی ہے اور وہ حقیقت پسندی کے بہت قریب ہیں۔ منیر احمد فردوس نہ صرف ذات کی باتیں کرتے ہیں بلکہ سماج پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں۔

منیر احمد فردوس نے تازہ ترین کتاب جو چھبیس کہانیوں پر مشتمل اور ایک سو اٹھائیس صفحات پر محیط ”یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے“ لکھ کر جہاں کہانیاں پڑھنے والے قارئین کو حیرت زدہ کیا ہے وہاں عہدِ حاضر کے نقادوں کو بھی چونکا دیاہے۔ محسوسات اور حساس لکھاری کے جذبات سے گندھا ہوا یہ مجموعہ معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ بھی ہے اور دم توڑتی انسانیت کا نوحہ بھی۔ کہانیوں کے پسِ منظر میں منیر احمد فردوس کی دلیری اور جرآت کو سلام کرنے کے ساتھ ساتھ صریر پبلیکیشنز راولپنڈی کو بھی اس خوبصورت اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے اپنے اسلوب اور انداز سے نہ تو قاری کی آنکھوں میں جلن پیدا کرتی ہے اور نہ ہی اس میں شامل موضوعات سے اکتاہٹ محسوس کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہر کہانی دلچسپ مگر گہری سوچ کی حامل ہے جو آغاز سے ہی قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور آخر تک جکڑے رکھتی ہے۔

منیر احمد فردوس کی کہانیاں سماج ہی کی عکاسی کرتی ہیں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ وہی سسکتی اور بلکتی صورتیں، وہی خواہشیں و حسرتیں۔ یہ کہانیاں پڑھ کر کچھ لوگ منیر احمد فردوس کو بھی منٹو کی طرح بُرا لکھاری کہیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ ہمیں ایک نشہ لگ چکا ہے ہر چیز میں صرف حِسین پہلو تلاش کرنے کا نشہ۔ اگر انہوں نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کے افراد کو اپنا کردار بنایا ہے تو کیا انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے؟ انہوں نے وہ لکھا ہے جو معاشرے نے انہیں دکھایا ہے۔

ان کے پاس خوبصورت الفاظ نہیں ہیں، نہ ہی ایسی تشبیہات اور استعارے جنہیں پڑھ کر ہم کھو سے جائیں یا تسکین حاصل کریں۔ ایسی کہانیوں میں خوبصورت الفاظ کہاں سے لائے جب ان کے کرداروں کی زندگی ہی زہر بھری ہو۔ یقین نہ آئے تو ان کی کہانی ”آئینے سے جھانکتی سرخ آنکھیں“، چالاک قاری، اثاثوں کی حیرت، تھپیڑے، دعا ضرور کرنا اور خاص کر آخری کہانی ”یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے“ پڑھ کے دیکھ لیں۔ کیا یہ ہمارے اردگرد کے کردار نہیں؟ کیا ہم ان سے نظریں چرا سکتے ہیں؟ کیا ہم ان کہانیوں کو پڑھ کرسوچنے، سمجھنے اور بچنے کے علاوہ صرف ”چَس یا تسکین“ حاصل کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ پڑھ کے سوچئیے گا ضرور۔

میں جانتا ہوں منیر احمد فردوس نے لکھنے سے پہلے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے۔ اولین بوٹوں والی نوکری کے باعث ملک کے طول و عرض کو ناپ چکا ہے۔ منیر احمد فردوس ڈیرہ اسماعیل خان جیسی دھرتی کا ”جایا“ ہے۔ جو نہ صرف علم و ثقافت، فنون ِ لطیفہ کی آماج گاہ ہے بلکہ تاریخی و سیاسی و مذہبی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مشاہدہ بہت وسیع ہے۔ اسی وجہ سے ان کی کہانیوں میں مقصدیت صاف جھلکتی ہے کیونکہ ان کا ثقافتی، روائیتی، سماجی، سیاسی و مذہبی شعور پختہ اور دقیقہ رس ہے۔

انہی تجربات و مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے احساس و محسوسات کی شکل میں صٍفحہ قرطاس پر کہانیوں کی شکل میں بکھیرا ہے۔ یہی ان کا فن ہے۔ ان کی نثر میں تخلیقیت، جملوں میں استعارہ اور مفہوم میں تخیل کی کارفرمائی بہت نمایاں ہے۔ جیسے ان کی کہانی ”گہرا کنواں“ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ پس منظر میں کوئی نجمہ نامی کُرلاتی روح صدیوں سے اپنا ان کہا نوحہ پڑھ رہی ہو۔ ”چلو بھاگو یہاں سے“ پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ منیر فردوس کم سے کم الفاظ میں بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

کوئی پیغام دینا ہو، کسی اہم مسئلے پر توجہ دلانی ہو یا کوئی درد ناک خبر سنانی ہو، مصنف سب کچھ چند الفاظ میں کہہ سکتا ہے۔ ”ماسٹر دین محمد“، ہے کوئی اس کا جواب؟ اور ”بدبو کا جہنم“ یہ کہانیاں جہاں ایک طرف زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس پیش کرتی ہیں وہیں دوسری جانب ان میں معاشرے کے اوپر بھر پور طنز بھی ملتا ہے۔ ہم جو خود کو اس مہذب دنیا کے باسی تصور کرتے ہیں، حقیقتاً اپنے نفس کے غلام ہو کر آج بھی اسی دور میں جی رہے ہیں جہاں اعلیٰ و ادنیٰ کی ظالمانہ تفریق اور انسانی رشتوں کی پامالی عام بات ہے۔ سماج کے ان رِستے ہوئے ناسوروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں یہ کہانیاں دور جدید کے استعارے کی شکل میں آئینہ بن کر سامنے آئی ہیں۔

کتاب لکھنا کوئی مشکل کام نہیں، یہ میرا نظریہ ہے۔ مشکل کام یہ ہے کہ اُس کتاب میں بیان کردہ مضامین بہ یک وقت عوام و خواص کی ذہنی سطح کے موافق ہوں اور ہر دو کے لئے قابلِ فہم ہوں۔ یعنی مشکل تر بات کو بھی آسان تر اسلوب میں کر دیا گیا ہو۔ اول تو اس کا اندازہ کتاب کے سرورق پر زنگ آلودہ ”ولسن بھونان برانڈ ٹائپ“ کے قدیم تالے سے ہی لگایا جاسکتا ہے بعد ازاں مطالعہ سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ”یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے“ کئی اور خوبیوں کے علاوہ اِس خوبی میں بھی اپنا نمایاں مقام رکھتی ہے۔

یہ کتاب مختصرلیکن جامع کہانیوں پر مشتمل ہے اور تقریبا تین گھنٹوں کی مستقل توجہ سے ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکتی ہے اور یہی شاید اس کتاب میں پائی جانے والی واحد خامی ہے۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر تشنگی رہ جاتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ چند کہانیاں مزید ہوتیں، تو اچھا ہوتا۔ نام نہاد تبدیلی اور ہوشرباء مہنگائی کے دور میں بھی منیر آحمد فردوس نے یہ کتاب چھپوا کر ثابت کر دیا کہ تخلیق کار بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن تخلیق کے بغیر زندہ رہنا اس کے لئے ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments