قوم یا جھنڈ۔ فیصلہ آپ کا


میں مغربی ممالک میں سے ایک ملک میں قیام پذیر ہوں، اس ملک کا دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ لائف سٹائل یعنی زندگی گزارنے کے طریقے اور سہولیات کے تناسب سے یہ دنیا کا دوسرا بہترین ملک ہے۔ بطور معاشرہ یہاں رہنے والے لوگ انتہائی خوش اخلاق اور مدد کرنے والے ہیں۔ مشکل حالات میں کسی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ متاثرہ فرد کی بڑھ چڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ جرائم نا ہونے کہ برابر ہیں اور ریپ جیسا گھناونا جرم صدیوں میں ایک ہوتا ہے۔

آپ یا آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی اکیلا دن یا رات کے کسی بھی پہر باہر سڑک پر یا مارکیٹ میں، گھر میں یا جنگل میں اکیلا ہو تو اس کو کسی خوف کا احساس نہیں ہوتا۔ مذہبی طور پر سب کو اپنے اپنے مذپب کی آزادی ہے اور کوئی بھی کسی کے مذہب پر نا تو تنقید کرتا ہے نا بلاوجہ کوئی لڑائی بناتا ہے۔ حکومت کا نظام ایسا ہے کہ نا کوئی اقلیت ہے نا اکثریت۔ قحبہ خانے اور جسم فروشی پر مکمل پابندی ہے۔ سرکاری ادارے خصوصا پولیس اتنی با اخلاق اور مدد کرنیوالی ہے کہ بطور پاکستانی اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ ایسا بھی ہوتا ہے دنیا میں۔ یہ ساری باتیں صرف اپنے تجربہ سے نہیں کرہا ہوں بلکہ اس پر ہزاروں تحقیقات آن لائن موجود ہیں اور لاکھوں پاکستانی اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔

آپ کو ہزاروں باتوں میں سے جو میں نے چند باتیں بتائیں اس سے آپ کو لگ رہا ہو گا کہ ضرور کوئی اسلامی ملک ہو گا لیکن افسوس کے ساتھ نہیں یہ یورپ کے شمال میں واقع ”سویڈن“ نامی ملک ہے۔ جہاں اکثریت عیسائیوں کی ہے باقی دنیا تمام مذاہب بھی موجود ہیں۔ میں یہاں پر پولیٹیکل سائنس اور انٹر نیشنل ریلیشنز کا طالبعلم ہوں، جس کے باعث اس دنیا کے درجنوں ممالک کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ میری کلاس میں 30 طالبعلم ہیں جو کہ دنیا کہ مختلف 21 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ ساری باتیں اس لیے بتائیں کہ میری یہاں کے ایک مقامی سٹوڈنٹ سے بات ہورہی تھی تو اپنے معاشرے کا بتا رہا تھا کہ کیسے ان کے معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کا احساس کرتے ہیں اور کیسے لوگ مظلوم کی آواز بنتے ہیں۔ چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نا ہو قانوں کے آگے بے بس اور لاچار ہے، کسی بھی شخص کی غلط حرکت کو نا صرف قانون بلکہ پورا معاشرہ یک جان ہو کر اس کے خلاف ہوجاتا ہے۔ یعنی بطور معاشرہ یہ لوگ باشعور اور احساس کرنے والے ہیں۔

نا کوئی کسی کی زمین پر قبضہ کرتا ہے نا ہی یہاں کی حکومت کسی اقلیت کی عبادتگاہ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے و بچیاں بے خوف و فکر گھر سے اکیلے سکول جاتے اور آتے ہیں لیکن کبھی بھی ماں باپ کو فکر نہیں ہوتی کہ اٹھا کر ریپ کر دے گا یا اغواء برائے تاوان کے لیے اٹھا لے گا۔ یہی باتیں بتاتے بتاتے وہ بولا کہ اپنے معاشرے کی مجموعی صورتحال سے اگاہ کرو۔

یہ وہ سوال تھا جس سے میں ڈر رہا تھا کہ کیا بتاوں کہ بچوں کے ریپ میں دنیا میں میرا ملک پہلے نمبر پر ہے۔  سب سے بڑھ کیا بتاوں کہ ہم بطور معاشرہ وہ درندے ہیں کہ جانور بھی ان کی حرکتوں کو دیکھ کر شرما جاتے ہوں گے۔

جس کی تازہ مثال راولپنڈی میں چودہ سالہ بچی کے ریپ کا کیس ہے۔ جس میں ایک درندے نے معصوم کلی کے گھر پر پر اکیلے ہونے کا فائدہ اٹھایا اور اس کا ریپ کر دیا، کیونکہ روزانہ دن میں اس معصوم کا باپ مزدوری کے لیے گھر سے باہر ہوتا تھا اور اس بچی کو ساتھ اتنا خوف زدہ بھی کیا کہ وہ اس عمل کے بارے میں کسی کو نابتائے اور بچی چھوٹی سی عمر کی تھی جو کہ جو ڈر گئی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی دن تک یہ عمل دہراتا رہا اور اس جرم میں ایک دوست کو شریک کر لیا۔

اور پھر کافی دیر تک یہ درندے اس معصوم کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی، بات آگئی گردونواح کے لوگوں پر، جو بظاہر آپ کے محافظ ہونے کا دعوہ کرتے ہیں جو کہ آپ کا معاشرہ ہیں۔ اسی دوران بچی کے ہمسائے کو کوئی شق گزرا تو بچی کے گھر پتا کرنے آیا کہ سب ٹھیک ہے تو دیکھا کہ بچی برہنا حالت میں نڈھال پڑی ہے اور دونوں درندے دوڑ گئے ہیں۔ لیکن یہاں سے شروع ہوی ہے معاشرتی اور بحثیت قوم نہیں درندوں کے جھنڈ ہونے کی نشانی، کہ اس بزرگ شخص نے بھی موقع کا فائدہ اٹھایا اور بچی کا ریپ کر دیا۔

سوچیں اس معصوم کو کیا لگا ہو گا کہ شکر ہے کوئی آیا جو میری مدد کرے گا، میرا مسیحا بنے گا، اسلامی ریاست میں اسلامی تعلیمات کا محافظ ہوگا لیکن کیا پتہ اس کو کہ یہ معاشرہ مذہب تو کیا انسانیت نام کے لفظ سے بھی واقف نہیں۔ اور بات یہاں نہیں رکی، بلکہ اس گھناونے جرم میں ایک اور شخص کو بھی شامل کر لیا۔ یہاں تک وہ بیچاری حاملہ ہوگئی اور چھ ماہ کا حمل ٹھہر چکا تھا اور بات تب کھولی جب باپ کو بیٹی کی جسمانی اور طبی صورتحال میں تبدیلیاں نظر آئیں تو اس نے اصل بات دریافت کی جس پر اس معصوم نے اصل ماجرہ بتایا۔ اور بتایا کہ اے میرے باپ کہاں جانوروں میں پیدا کر دیا ہے مجھے، قصور کیا ہے آخر میرا۔ آیف آئی آر درج ہوگئی ہے اور ملزمان زیرحراست ہیں لیکن اس معصوم کو انصاف ملتا ہے یا نہیں وقت بتائے گا کیونکہ اگر اپنے محکموں کی کارگردی دیکھی جائے اور پرانے واقعات دیکھے جائیں تو اس سے قطعاً کوئی امید نظر نہیں آتی۔

لیکن اس واقعہ جیسے ہزاروں ایسے واقعات جو کہ ہمارے ملک میں معمول بن چکے ہیں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم معاشرتی طور پر مردہ قوم ہیں اور اس میں سب کا قصور تو ہے لیکن سب سے زیادہ قصور ہمارے مذہبی رہنماؤں کا ہے جو کہ ہماری اخلاقی اور معاشرتی تربیت کے ذمہ دار ہیں لیکن ان کو اپنی اپنی دکانداری کی فکر ہے۔ کوئی سیاست میں گھسا بیٹھا ہے تو کسی کو دنیا کے تمام معاشروں پر اعتراض کرنے سے فرصت نہیں۔ کوئی گالیاں دینے میں مصروف ہے تو کوئی ایسے واقعات میں معصوم مظلوموں کی کردار کشی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

دنیا کا کوئی بھی معاشرہ مذہبی اور ثقافتی تعلیم کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور اس معاشرے میں تو یہ دونوں دور دور تک نہیں پائی جاتیں۔ اور جن لوگوں کو اصل میں ان مسائل پر اس جھنڈ کی تعلیم و تربیت کرنی ہے وہ خود اپنے نفس اور خواہشات کے تلے دبے بیٹھے ہیں۔ فرقہ وارانہ، کسی کو برا کہلانا ہو، کوئی مذہبی و سیاسی جلسہ کروانا ہو یا طوائفوں کی طرح محفلوں میں پیسوں کی بارش میں نعت خوانی کروانی ہو تو یہ لوگ کرائے پر دستیاب ہیں لیکن کئی اگر یہ لوگ دستیاب نہیں ہیں وہ ہے اپنے فرض میں، اسلامی تعلیمات اور روایات میں۔

بس ابھی تک اسی سوال کو لے کہ بیٹھا ہوں کیا جواب دوں ان لوگوں کہ میرا معاشرہ کیسا ہے، میں کسی جھنڈ (قوم نہیں کہوں گا کیو نکہ ہم اس کے قابل نہیں ) سے اٹھ کر آیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments