شہر اقتدار کا محاصرہ ۔ دامے، درہمے، قدمے، سُخنے


\"ali

شہر اقتدار اسلام آباد کے باسی جو زیادہ تر پردیسی ہیں ہر مہینے کی یکم کا انتظار تو شدت سے کرتے ہی ہیں لیکن اب پہلی بار نومبر کے مہینے کی دو تاریخ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کے بارے میں پورے ملک کو ہمیشہ شکوہ رہتاہے کہ اس شہر میں اسلام کے علاوہ سب کچھ ہے لیکن اس شہر کے لوگوں کو شک ہے کی یہاں اسلام کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ شہر گولڑہ شریف کی درگاہ سے شروع ہوکر بری سرکار پر ختم ہو جاتا ہے اور بیچ میں فیصل مسجد ہے۔ یہ شہر ثقافتی طور پر یتیم سا ہے۔ یہاں پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح نہ میلے ٹھیلے نہ ساز و سارنگی، اور نہ ہی گیت نہ غزل۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اس شہر کے باسیوں کو شاہراہ دستور پر جس سیاسی منورنجن سے روشناس کروایا اس کو یہاں کے باسی ابھی تک نہیں بھولے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب ان کو شاہراہ دستور پر پھر جانا نصیب ہو۔ ایسے میں اسلام آباد کی ایک عدالت نے دو نومبر کے میلے کو بھی اسلام آباد کا محاصرہ قرار دے کر کہا ہے کہ یہ یہاں کے رہنے والوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ لیکن خان صاحب کی مستقل مزاجی اور اپنے ہمسائے شیخ رشید کی دلیری اور گجرات والے شجاعت کی شجاعت پر کامل بھروسہ ہے کہ اس دفعہ پھر اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر میلہ سج کر ہی رہےگا۔

اس شہر کے مکین پر امید ہیں کہ میلہ سجانے والے چیتے بھی ملک کے کونے کونے سے اسلا م آباد کو شرف میزبانی بخشیں گے اور اہل اسلام آباد بھی ان کی مہمان نوازی اور خدمت گزاری مین کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرینگے ۔ جس طرح 1857 کی جنگ آزادی میں تلنگانہ سے آنے والے مجاہدین، جن کو بعد میں انگریزوں نے تلنگے کہہ کر اردو لغت میں ایک لفظ کا اضافہ کیا، کی مہمان نوازی دہلی والوں نے کی تھی اہل اسلام آباد اس سے بڑھ کر کریں گے ۔ دہلی والوں نے تو بہادر شاہ ظفر کو ایک مراسلہ لکھ کر اپنے کئے کرائے پر پانی پھیردیا تھا کہ ان کےمہمان بغیر نہائے ناشتہ کرتے ہیں اسلام آباد والے ایسا بھی نہیں کریں گے کیونکہ میلے کے دوران یہاں نہانے کا پانی نہ مہمان کے لئے میسر ہوگا نہ میزبان کو۔

پہلے زمانوں میں شہر کے شاہی مکین گھوڑوں کے سموں کی آوازوں سے پہچانتے تھے کہ آنے والا گھوڑا ترکی النسل ہے یا عربی اب اس شہر کے باسی گاڑیوں کے انجن کی آواز سے ہی اندازہ لگاتے ہیں کہ آنے والی کی گاڑی کو کتنے گھوڑے کھینچ رہے ہیں ۔ اسلام آباد کے کسی بھی ٹریفک سگنل پر کھڑا پولیس والا آنے والی گاڑی کی ساخت دیکھ کر ہی سواری کی شان کا اور اپنی اوقات کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ پہلے زمانوں میں آنے والوں کے مصاحبین سے اندازہ لگا یا کرتے تھے کہ آنے والا کس قماش کا ہے اب یہاں لوگ مہمان کے آس پاس منڈلاتے آڑھتیوں اور ماشہ خوروں سے بخوبی اس کی شان، ذات اور مرتبہ پہچان لیتے ہیں۔

\"islamabad-containerstory\"

شہر پناہ میں بے ادب اور بد تمیز رکشے والوں اور تانگے والوں کا داخلہ ممنوع ہے اس کے باوجود یہاں کچھ شاہی آداب سے نا واقف لوگ پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کی جسارت کرتے ہیں جن کو کبھی کبھار سبق سیکھانا ضروری ہوتا ہے۔ اس شہر کے باسیوں کو معلوم ہے شہزادے یہاں ملک بھر سے اپنی گاڑیوں کی سپیڈ چیک کرنے آتے ہیں اور ان کے سامنے نہیں آنا چاہیے ورنہ وہ رات ہسپتال یا قبر میں ہو تو اس میں سامنے آنے ولے کا ہی قصور ہوگا۔ جب کوئی گاڑی رات گئے کسی سڑک پر جھوم رہی ہو تو یہاں رہنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ گاڑی میں میوزک چل رہا ہے اور گاڑی ناچ رہی ہے اس لئے خود ہی ہٹ کر اس گاڑی کو رقصاں ہونے کو جگہ دینا چاہیے۔

پورے ملک سے لائی گئی دولت سے ہی اس شہر کے دولت کدے اور نعمت کدے تعمیر ہوئے ہیں۔ کچھ حاسدین کہتے ہیں کہ یہاں لائی گئی دولت لوٹ کر لائی گئی ہے اور یہ شہر لوٹ کے مال سے بنا ہے۔وہ عاقبت نا اندیش نہیں جانتے کہ اس شہر کی اونچی عمارتیں اور وسیع و عریض محلات اس ملک کی شان ہیں اور اس میں رہنے والے جب ایمانداری اور حب الوطنی کا درس دیتے ہیں تو ملک کے وقار بھی بلند ہوکر کہکشاؤں کو چھو لیتا ہے۔ کبھی اس شہر کی اونچی عمارتوں کے اندر بنی خود کار سیڑھیوں سے چل کر ان عمارتوں کے چھتوں پر جاکر اپنے موبائل فون سے کوہ مارگلہ کے پس منظر کی سیلفی بنواکر اس کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ لگاکر کر تو دیکھیں کہ ایک گھنٹے میں ہی کتنے لوگ آپ کی تصویر کو پسند کرتے ہیں اور آپ کو ہیرو بنا لیتے ہیں۔

بے دخلی اور محصوری یہاں کے اداب کے اصولوں کا پہلا قرینہ ہے۔ دوکان مکان یا دفترسے بے دخل کرنا یہاں ایسا ہے جیسے چھٹی کے وقت سائلین کو کسی سرکاری دفتر سے نکال دیا جاتا ہے۔ کسی کرایہ داری کے قانون وغیرہ کے نہ ہونے کی وجہ سے کرایہ داروں کی بے دخلی انتہائی سہل ہے ورنہ کراچی کی طرح یہاں بھی مالکان مکان کرایہ دار بدلنے کو ترستے۔ قانون کرایہ داری اس لئے بھی نہیں بنایا جاتا ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے والے کرائے کی آمدنی سے ہی ہمارے صاحبان اقتدار کی پہنچ قانون سازی کے ایوانوں تک ممکن ہو پاتی ہے ۔ ویسے بھی کرایہ بڑھے گا تو مجموعی قومی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور اس سے ملک میں خوشحالی آئے گی ۔ ایسی معرفت کی باتوں کو اسلام آباد کے منتخب نمائندے اسد عمر جیسے ماہر معاشیات سے بہتر کون جان سکتا ہے۔

\"islamabad-police-bareer-close\"

جبری چھٹی بھی اس شہر اقتدار کی ایک ریت ہے جس کو حاسدین محصوری کہتے ہیں ۔ محرم ہو یاتیئس مارچ کی پریڈ ہو یا اکیس مارچ کو اس کی ریہرسل ، کسی ملک کا بادشاہ آرہا ہو یا جارہا ہو، اسلام کی سربلندی ہو یا عالم کفر کی طرف سے کوئی گستاخی کا مسئلہ اس شہر کے باسیوں کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور سرا دن ٹی وی پر اپنے شہر کی خبریں دیکھیں کہ یہاں آنے والوں نےکتنے ٹریفک کے سگنل توڑ دیے یا بس اسٹاپ پر بنی انتظار گاہوں کے کیبن توڑ دیے۔ سرکاری سکولوں میں تو جانا یا نہ جانے کا بچوں کے لئے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہاں بچوں کے گھر پر ہونے سے ماں کو ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول کو ڈھونڈنے میں دشورای پیش آتی ہے یا اس ریموٹ کنٹرول پر کنٹرول کےلئے لڑی جانے والی گھمسان کی جنگ پر ابا کو صلواتیں سنانی پڑتی ہیں۔ آج کل کے جدید دور میں تو پرائیوٹ سکول والے فیس بک اور ٹویٹر پر بھی پڑھا لیتے ہیں یا کم از کم سارادن سر جھکائے موبائل پر مصروف بچے اپنے والدین کو یہی کہتے ہیں۔ اس شہر کے بچے گھر میں رہنے کو محصوری نہیں تفریح سمجھتے ہیں۔

اس شہر کے مکیں زیادہ تر سیاست اور سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں لیکن گزشتہ انتخابات مین اسلام آباد کے پردیسیوں نے اس شہر کے مضافات سے آکر یہاں الیکشن لڑنے والے سیدوں اور غیر سیدوں کے خلاف اپنا ووٹ اپنے محبوب راہنما عمران خان کے کھمبوں کو دے کر ان کو یہ حق دے دیا کہ وہ پرانے پاکستان ک اب بدل دیں ۔ چونکہ خان صاحب نے اپنے وڈیو پیغام میں کہہ دیا ہے کہ اس ملک کے بے روزگاروں کو روزگار دینے، ملک کو مہنگائی اور کرپشن سے نجات دلانے کے لئے اسلام آباد کا محاصرہ بہت ضروری ہے۔ اسلام آباد کے مکین اپنے محبوب راہنما کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کی فوجوں کے زیرو پوائنٹ پہنچنے سے پہلے ہی ہم خود کو خود ہی دام، درہمے، قدمے ، سخنے محصور کر لیں گے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments