میمز کا بخار


سوشل میڈیا جہاں ایک فرد کو دنیا سے جوڑنے اور آگاہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے تو دوسری جانب بہت سی جگہ لوگوں کا خون بھی سفید کر دیتا ہے۔

آئے دن ہم سوشل میڈیا پر میمز کی بھر مار دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان طرح طرح کی میمز شیئر کرتے نظر آتے ہیں اور بسا اوقات تو یہ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے کہ ان میمز کو کہاں، کیسے اور کس موضوع کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

لفظ ’میمز‘ کی بات کی جائے تو یہ لفظ ’رچرڈ ڈاکنز‘ نامی بائیولوجسٹ نے 1976 ء میں اپنی کتاب ’دی سیلفش جین‘ میں پہلی بار استعمال کیا تھا۔ جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح خیالات اور نئی ترکیبیں ایک انسانی ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل ہوتی ہیں۔ بہرحال آج کی موجودہ دنیا میں لفظ ’میمز‘ کو مزاح کی ایک شکل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن افسوس کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر بات کو مزاح کے عنصر میں پیش کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

بعض اوقات ایسی سنجیدہ خبروں اور موضوعات پر بھی ہنسی مذاق کیا جارہا ہوتا ہے جو ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ قیمتی جانوں کا نقصان ہو یا عزتوں کا پامال ہونا ہو، ہر نئے موضوع اور خبر تک لوگوں کی رسائی بذریعہ میمز ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر سنجیدہ بات کو گھما پھرا کر پیش کرنا یا معاشرے کے حالات کو طنزومزاح کا لقمہ دے کر ہی سامنے لانا لازم ہوگیا ہے۔ کیا سادگی اور سیدھے سادھے انداز میں بات کرنا مشکل اور ہر بات میں ایک دوسرے کی کھلی اڑانا فرض ہے۔

ٹرینوں میں لگی آگ ہو یا کسی کے گھر چوری کا واقعہ ہو، والدین کی نصیحت ہو یا ملک میں پھیلی بیماری ہو، ہر چیز سے متعلق میمز فوراً تیار ہو جاتی ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ اس سے ہمارے معاشرے میں نہ صرف بے چینی اور اضطراب پھیل رہا ہے بلکہ ایک عدم برداشت کی فضا بھی قائم ہو رہی ہے۔ اب ہر فرد بہت چھوٹی سی بات پر بھی دوسرے کا مذاق اڑانے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ وہ میمز خود کو تازہ دم کرنے اور تفریح کے لیے شیئر کرتے ہیں، جب کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا دین بھی ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ بے جا ہنسنا اچھی بات نہیں کیوں کہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔

ہنسنا ہنسانا یا خوشیاں بانٹنا کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہر موضوع پر مذاق بنانا اور حساسیت کو نہ سمجھنا انتہائی عجیب اور فکر کی بات ہے۔

ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دلدل سے بچے اور سوچے کہ اس کا وقت کن کاموں میں صرف ہو رہا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر کس طرح کا مواد شیئر کررہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments