بے نیازی سے مسکراتی حکومت اور روتے بسورتے عوام


ایک تصویر دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ ایک بڑھیا رو پیٹ رہی ہے کہ اس کے بچے کی جان بچائی جائے۔ غم سے اس کی بری حالت ہے۔ شدت غم سے اس نے اپنی آخری امید یعنی وفاقی حکومت کے وزیر مملکت برائے صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا کے دونوں بازو پکڑ رکھے ہیں اور ان سے اپنے بچے کی چین سے واپسی کے لئے فریاد کر رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک دانا شخص ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ صدمے اور غم کے شکار افراد کو کیسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ خواہ وہ لپٹ ہی کیوں نہ جائیں، ان کی طرف دیکھا ہی نہ جائے تاکہ وہ شرمندہ نہ ہوں۔ دوسری بات یہ کہ زمانہ قدیم سے حکما بتاتے آئے ہیں کہ ہنسی سے بہتر کوئی دوا نہیں۔ ڈاکٹر بے نیازی سے کام لیتے ہوئے اس روتی ہوئی غمزدہ ماں کو یہی بہترین دوا دے رہے ہیں۔

ایک حکومت اگر اپنے شہریوں کو ایک مسکراہٹ بھی نہ دے پائے تو اس کی عزت کون کرے گا؟ ویسے بھِی غم کی گھڑی میں حوصلہ بلند رکھنا لازم ہوتا ہے۔ اگر حکمران بھی عوام کو روتے پیٹتے دیکھ کر دکھی ہو گئے تو قوم کا مورال تباہ ہو جائے گا۔ اور وہاں فوٹوگرافر بھی موجود تھے، فوٹو کھنچواتے ہوئے مسکرانا لازم ہوتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ چین میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبائی کے شہر ووہان میں ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی طلبا و طالبات مقیم ہیں۔ وہ بلاوجہ ہی گھبرا رہے ہیں کہ کہیں وہ بیمار ہو کر فوت نہ ہو جائیں حالانکہ گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چین میں کرونا وائرس سے ہونے والی کل اموات میں سے صرف دو تہائی اس شہر میں ہوئی ہیں۔ ویسے بھی جس کی جتنی لکھی ہے اتنی ہی جیے گا، وقت سے پہلے نہیں مرے گا۔ ایسے میں یہ مطالبہ کرنا کہ حکومت پاکستان بھی اپنے شہریوں کو ووہان سے ویسے ہی نکالے جیسے بھارت اور بنگلہ دیش نے نکالا ہے، ایک نامناسب مطالبہ ہے۔

ہم جانتے ہی ہیں کہ بھارت اور خاص طور پر بنگلہ دیش نہایت امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ وہ اپنے شہریوں پر پیسہ پھینک سکتے ہیں اور ان کے ہسپتال جدید ترین ہیں۔ ہم فضول خرچی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ نیز ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتا دیا ہے کہ وہ چینی حکام سے رابطے میں ہیں اور یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ چینی حکومت ہی پاکستانی شہریوں کی دیکھ بھال کر لے۔ ویسے بھی پاکستانی حکام ان طلبا کو بتا چکے ہیں کہ چین میں صحت کی سہولیات بہت بہتر ہیں اور طلبا ادھر زیادہ محفوظ رہیں گے جبکہ پاکستان کے پاس قرنطینہ کی سہولت نہیں ہے، یعنی وہ وبائی مریض کو دوسرے لوگوں سے الگ رکھنے پر قادر نہیں ہے۔

ہم پاکستانی حکام کے اس بیان کی تردید کرتے ہیں۔ حکومت کے پاس اگر سہولت نہ بھی ہو تو وہ پاک افواج سے مدد طلب کر سکتی ہے۔ وہ طوفان ہو یا زلزلہ، زندگی بچاتے ہیں، ہر مشکل گھڑی میں ملک و قوم کے کام آتے ہیں۔ پاک افواج کے پاس بہترین تربیت یافتہ ڈاکٹر، اعلیٰ درجے کے ہسپتال اور منظم طبی عملہ موجود ہے۔ بھارت کے جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ ہماری بہادر اور قابلِ فخر افواج نے کیمیائی اور جراثیمی حملے کی پیش بندی کر رکھی ہو گی اور اس سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس تمام ضروری انتظامات موجود ہوں گے۔ ذرا تصور تو کریں کہ جنگی جنون میں مبتلا نریندر مودی یہ سوچ کر کہ وہ پاکستان کا کھلے میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتا، ادھر جراثیمی حملہ کر دے تاکہ وبا پھیلا کر ہمیں نقصان پہنچا سکے، تو کیا ہم اس سے نمٹ نہیں پائیں گے اور اپنے شہریوں کو چین بھیجیں گے؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ جو چینی شہری پاکستانی ائرپورٹس پر آ رہے ہیں بلکہ مقامی ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں، کیا ہم انہیں قرنطینہ میں رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے؟ ڈاکٹر ظفر مرزا نے تو کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے خود اپنی حکومت بلکہ اپنی وزارت کی صلاحیت پر ہی انکساری برت دی ہے۔ یہی ہماری اعلیٰ مشرقی روایت ہے۔ ہم بھی تو اپنے کنال دو کنال کے گھر کو غریب خانہ ہی کہتے ہیں اور مرغن کھانوں سے سجی دعوت کرتے ہوئے مہمان کو گھر میں میسر دال روٹی کھانے کا کہہ کر بلاتے ہیں۔

بہرحال وفاقی حکومت کے وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ان روتے ہوئے والدین کو غم کی بہترین دوا دیتے ہوئے انہیں یہ تسلی بھی دی ہے کہ وہ ان کا غصہ کابینہ کو پہنچا دیں گے۔ اب اس کے بعد پاکستانی والدین کو اپنا احتجاج ختم کر دینا چاہیے۔ نہ صرف ان کے بچے چین میں زیادہ محفوظ ہیں بلکہ ان کا غصہ بھی وزرا تک پہنچ چکا ہے، وہ مزید کیا چاہتے ہیں؟

بعض لوگ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ طلبا پاکستان پہنچ گئے تو ان کے ساتھ کرونا وائرس بھی پہنچ جائے گا۔ ہم نے اس خدشے پر غور کیا ہے اور اسے نہایت معقول پایا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی طلبا کے علاوہ یہ خطرناک وائرس چینی شہریوں کے ذریعے بھی پاکستان پہنچ سکتا ہے، اس لئے چینیوں کی پاکستان آمد پر ویسی ہی پابندی عائد کر دی جائے جیسی پاکستانی طلبا پر عائد کی گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ وائرس اتنا خبیث ہے کہ مختلف اشیا پر بھی چپک جاتا ہے اور انہیں ہاتھ لگانے والے کو لگ جاتا ہے۔ مناسب ہو گا کہ چین سے تمام دیگر درآمدات بھی ویسے ہی بند کر دی جائیں جیسے پاکستانی طلبا کی آمد بند کی گئی ہے۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ چین نے غیر ملکیوں کے باہر جانے پر پابندیاں لگا دی ہیں اس وجہ سے پاکستانی طلبا کو بلانا ممکن نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے غیر مسلم برادر دوست ملک کے قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ طلبا اتنی مدت چین میں رہ کر بھی چینی زبان نہیں سیکھ پائے، اسی وجہ سے کہہ رہے ہیں کہ چینی وزارت خارجہ نے منگل کو بیان دیا ہے کہ ”وہ ممالک جو اپنے شہریوں کو واپس لے جانا چاہتے ہیں، چین تمام متعلقہ انتظامات کر دے گا اور عالمی و مقامی وبائی کنٹرول کے ضوابط کے مطابق اعانت فراہم کرے گا“۔

ایک طالب علم میر حسن کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ اپنی ضعیف والدہ کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں۔ حسن نے اپنی یونیورسٹی سے رابطہ کیا جس نے ان کی واپسی کی حمایت کی۔ چینی حکام نے انہیں بتایا کہ اگر پاکستانی سفارت خانہ ان سے رابطہ کرے تو وہ انہیں واپس بھجوا دیں گے۔ پاکستانی سفارت خانے نے رابطہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ چین میں مواصلات کی ناکافی سہولیات ہی ہوں گی۔

طلبا کے مطابق ایک پاکستانی افسر نے انہیں بتایا ہے کہ تمام طلبا کو ووہان سے نکال لیا جائے گا لیکن پاکستان کے وزیر مملکت برائے صحت اور وزیر برائے بیرون ملک پاکستان سے ویڈیو کال کے بعد فوری انخلا کو خارج از امکان قرار دیا گیا ہے۔ یہ نوجوان اتنے بے صبرے کیوں ہیں؟ دو چار ہفتے بعد حالات نارمل ہوتے ہی ہماری بے نیاز حکومت انہیں نکال لے گی۔

پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم ساحل حسن نے کہا ہے کہ انہیں سکالر شپ کی رقم ملنے میں دشواری پیش آ رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی یونیورسٹی کی کھانا فراہم کرنے والی سروس سے کھانا پانی خریدنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں جبکہ اس یونیورسٹی کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ دیکھیں ساحل حسن صاحب، ڈاکٹر ظفر مرزا بتا چکے ہیں کہ چین میں آپ کا خیال پاکستان سے بہتر رکھا جا رہا ہے تو آپ کو کھانا پانی نہ ملنے کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ وبائی صورت حال قابو میں آ رہی ہے۔ دو چار ہفتے میں حالات نارمل ہو جائیں گے تو انہیں کھانا دے دیا جائے گا۔ جب تک آپ اور آپ کے ساتھی حوصلہ بلند رکھیں کیونکہ پاکستان کی حکومت نہایت ہمدردی اور بے نیازی سے آپ کی معاملے پر غور کر رہی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments