تاریخ کا قتل: بڑے بڑے نام کٹہرے میں کھڑے ہیں


6 فروری کو ‘ہم سب’ پر مکرم ڈاکٹر ساجد علی صاحب کا ایک شاندار کالم “سکولوں میں تاریخ نہ پڑھائی جائے” شائع ہوا۔ اس کالم میں ڈاکٹر صاحب نے بہت ٹھوس انداز میں ثابت کیا کہ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں سکولوں میں تاریخ پڑھانے کے نام پر بچوں کے ذہنوں میں زہر بھرا جاتا ہے۔ بھارت میں پڑھائی جانے والی بہت سی درسی کتاب میں اسلام اور مسلمان شخصیات کو بہت منفی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اور انہیں ظالم کے روپ میں پیش کر کے شروع ہی سے پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ خیال راسخ کر دیا جاتا ہے کہ بھارت کے مسلمان ان غاصبوں کی اولاد ہیں۔ لیکن کیا تاریخ کا یہ قتل صرف درسی کتب میں کیا جاتا رہا ہے یا پاکستان کی طرح بھارت کے اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی معاشرے میں اس قسم کے ایسے خیالات پھیلاتے رہتے ہیں۔

اگر سارے ملک کے پڑھے لکھے لوگ انہیں خیالات کا اظہار کر رہے ہوں تو لازمی طور پریہ زہر درسی کتب میں شامل ہو کر طلبا کے ذہنوں کو آلودہ کرے گا۔ اور ہر ملک میں کی تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کا سحر اس ملک کی اکثریت کو اپنی پیروی میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ اگر ملک کی یہ عظیم شخصیات بھی اس زہر فشانی میں شامل ہوجائیں تو ملک کے باقی لوگ انہی کی اتباع کریں گے۔ بد قسمتی سے آزادی بلکہ تحریک آزادی سے لے کر اب تک پاکستان اور ہندوستان کے لوگ باہمی احترام کے جذبات سے محروم رہے ہیں۔ یقینی طور پر کچھ استثناء گنوائے جا سکتے ہیں لیکن ایسی مثالیں بہت تھوڑی ہیں۔ کسی کے احترام کے لئے اس کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔

پاکستان میں تاریخ کے قتل کے متعلق تو بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن بھارت والوں نے بھی کچھ کسر نہیں چھوڑی۔ یہ تاریخ کا ایک المیہ ہے کہ اس عمل کا آغاز آزادی کے وقت ہی ہو گیا تھا اور یہ ناگوار عمل بہت بڑی شخصیات نے شروع کیا تھا۔ میں صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

بھارت کے پہلے وزیر تعلیم اور کانگرس کے سابق صدر مولانا ابو الکلام آزاد اپنی کتاب میں انڈیا ونز فریڈم کے صفحہ 96 پر لکھتے ہیں کہ جب 1906 میں مسلم لیگ کا پہلا اجلاس ہوا تو میں اس میں موجود تھا۔ مسلم لیگ کو بنانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں میں برطانوی حکومت کے لئے وفاداری کے جذبات پیدا کئے جائیں اور انہیں بڑھایا جائے۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ اسی لئے جب کانگرس ہندوستان کی آزادی کے لئے جدو جہد کر رہی تھی تو مسلم لیگ آزادی کے اس مطالبے کی مخالفت کر رہی تھی۔ اسی طرح بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو صاحب نے مئی 1964 میں ایک غیر ملکی صحافی کو اپنی زندگی کا آخری انٹرویو دیا۔ اس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسٹر جناح نے آزادی کی جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آزادی کے خلاف تھے۔ مسلم لیگ کو تو انگریزوں نے خود قائم کیا تھا تا کہ ہماری صفوں کو تقسیم کیا جا سکے ۔

جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے اغراض و مقاصد بھی طے ہوئے ۔ ان میں سے پہلا مقصد یہ تھا

“مسلمانان ہند میں برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کے خیالات کو ترقی دینا اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنا جو حکومت کی کسی کارروائی کے متعلق حکومتی ارادوں کی بابت پیدا ہو سکتی ہیں۔ “

بہت سے پڑھنے والے یہ سوچیں گے کہ مولانا آزاد اور پنڈت نہرو کی بات صحیح ہے ۔ مسلم لیگ تو اسی لئے بنائی گئی تھی تاکہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کا وفادار بنایا جا سکے۔ لیکن آدھے سچ سے ہمیشہ غلط نتیجے نکلتے ہیں۔ اب ہم تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔ مولانا آزاد اور پنڈت نہرو تو تمام عمر آل انڈیا نیشنل کانگرس سے وابستہ رہے۔ جب اس پارٹی کا آغاز ہوا تو اس معاملے میں اس کے پلیٹ فارم سے کیا آواز بلند ہوئی ؟جب 1885 میں بمبئی میں کانگرس کا پہلا اجلاس ہوا تو اس کے خطبہ صدارت میں یہ اعلان کیا گیا کہ یہ اجتماع برطانوی حکومت کے کامل وفاداروں اور خیر خواہوں کا اجلاس ہے۔ اور اس کے اغراض و مقاصد میں لکھا تھا کہ ہندوستان کے قومی اتحاد کا آغاز تو ہمارے محبوب وائسرائے لارڈ رپن کے دور میں ہوا تھا۔

ملاحظہ کریں کہ پنڈت نہرو صاحب نے کہا تھا کہ انگریز حکومت ہندوستانیوں کو تقسیم کر رہی تھی لیکن خود کانگرس کے پہلے اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ہندوستان کا اتحاد تو پیدا ہی انگریز وائسرائے نے کیا تھا۔ کانگرس کے دوسرے اجلاس میں اس کے صدر دادا بھائی نوروجی نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ برطانوی حکومت کے سایہ میں رہ رہے ہیں۔ اور حاضرین نے تالیاں بجا کر اس اعلان کی داد دی۔ پھر انہوں نے کہا کہ ملکہ اور انگلستان کے مہذب لوگوں کی حکومت کی وجہ سے ہی ہم یہاں اکھٹے ہو رہے ہیں۔ اور ایسا صرف برطانیہ کی حکومت کے تحت ہی ممکن ہے۔ اس کے بعد انہوں نے برطانوی حکومت کی متعدد برکات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہندوستان پر ہمیشہ برطانیہ کی حکومت رہے۔ اور اسی وفاداری کی وجہ سے جب کانگرس کا چوتھا اجلاس ہوا تو اس کی صدارت کے لئے ایک برطانوی تاجر George Yule کو کانگرس کا صدر منتخب کیا گیا۔

اسی طرح گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں بوئر جنگ کے دوران برطانوی فوج کی طبی مدد کے لئے رضاکارانہ طور پر خدمات سرانجام دیں اور 1900 میں جب مقامی زلو قبیلہ نے برطانوی حکومت سے آزادی کے لئے بغاوت کی تو اس وقت گاندھی جی نے برطانوی فوج کی طبی خدمات سرنجام دیں۔ اس وجہ سے انہیں دو تمغے بھی دیئے گئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کانگرس یا گاندھی جی نے آزادی کے لئے گرانقدر خدمات سرنجام نہیں دیں۔ ایسا کہنا تاریخ کا قتل کرنا ہوگا۔ لیکن اس ماضی کے ساتھ مسلم لیگ پر اعتراض کرنا ایک بے معنی بات ہے۔

جہاں تک قائد اعظم کے بارے میں پنڈت نہرو کے دعوے کا تعلق ہے تو یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ جب 1906 میں کانگرس کے اجلاس میں ہندوستان کے لئے سیلف گورنمنٹ کی قرارداد پیش ہوئی تو قائد اعظم نے نہ صرف اس کی تائید کی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ ہم جس سیلف گورنمنٹ کے آئین کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس میں مسلمانوں کو اپنے لئے کسی اضافی تحفظ کی ضرورت نہیں اور ہم سب برابر ہیں۔ 1912 میں ہی مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں یہ مطالبہ پیش کر دیا گیا تھا کہ ہندوستان کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانی چاہیے۔ اور اس کونسل میں اس تجویز کے حق میں ایک تقریر قائد اعظم محمد علی جناح کی تھی۔

1913 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں سیلف گورنمنٹ کی تجویز منظور کی گئی تھی اور اس کے حق میں قائد اعظم نے تقریر کی تھی اور وضاحت کی تھی کہ سیلف گورنمنٹ سے مراد یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے لئے ہو۔ اسی طرح جب 1916 میں ہوم رول لیگ قائم کی گئی تاکہ یہ تحریک چلائی جائے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی حکومت خود چلائیں تو قائد اعظم اس کے نمایاں لیڈر تھے۔ یہ حقائق واضح کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے ہندوستان کو غلامی سے نکال کر جمہوری حکومت قائم کرنے کی کوششیں اُس وقت شروع کی تھیں جب پنڈت جواہر لال نہرو بمشکل 16 یا 17 سال کے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی خدمات کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔ یہ دعوی کہ قائد اعظم آزادی کے خلاف تھے، ایک بے معنی دعوی ہے۔ بلاشبہ پنڈت نہرو اور مولانا آزاد بر صغیر کی عظیم شخصیات ہیں لیکن جب بڑے منہ سے چھوٹی بات سننے کو ملے تو اور بھی زیادہ افسوس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments