عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا


گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون نے ایک ٹریفک کانسٹیبل کو پنجابی درست بولنے پر غلط انگریزی میں ڈانٹ دیا۔ اپنی زبان کے کے ساتھ یہ تحقیر کا یہ موقعہ کوئی نیا نہیں تھا۔ ہم نے اس تنزلی تک پہنچنے میں دہائیاں صرف کی ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ مادری زبان اثاثہ ہوتی ہے۔ اسلوب ہوتی ہے۔ اسلاف کا ورثہ ہوتی ہے۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ رہن سہن، سوچ، علم و ادب، ثقافت کی غماز ہوتی ہے۔ یہ بزرگوں کی دین ہوتی ہے۔ یہ شاعروں کا لہجہ ہوتی ہے۔ یہ قلم کاروں کا تحفہ ہوتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی مادری زبانوں کے فروغ کی ضرورت پڑی ہے۔ اکیس فروری سے اسلام آباد میں انڈس کلچرل فورم کی جانب سے پانچویں سال ہونے والا پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ فورم کسی ایک زبان کی نہیں بلکہ ملک بھر کی تمام زبانوں کی یکساں حیثیت کے لئے کوشاں ہے۔

اپنی زبانوں کے ساتھ جو تعصب ہم نے برتا ہے اس کی مثال کسی اور قوم میں نظر نہیں آتی۔ اقوام عالم اپنی زبانوں پر فخر کرتی ہیں۔ ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنی زبان کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں۔ یہ لسانی تعصب علاقائی/ صوبائی زبانوں سے ہوتا ہوا ہماری مادری اور قومی زبان تک در آیا ہے۔ ہمارے ہاں درست لہجے میں اردو بولنے والا پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوی اور سرائیکی بولنے والے کو گنوار سمجھتا ہے۔ جو انگریزی بول سکتے ہیں وہ اردو میں کلام کرنے والوں کو جاہل گردانتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک خاص درجے کے بعد تعلیم کا سارا سلسلہ انگریزی میں ہے

ہم نے جانے کیسے تصور کر لیا ہے کہ زبان انگریزی ترقی کا زینہ ہے۔ انگلش زبان کی وسعت اور بین الاقوامی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن کیا اس وسعت زبان انگریزی کی طرف ترقی یا فتہ ممالک کا بھی یہ رویہ ہے؟ آپ فرانس چلے جائیں خال خال ہی کوئی شخص ملے گا جس کو انگریزی کی بنیادی سدھ بدھ بھی ہو۔ بلکہ فرانس میں تو انگریزی بولنا بدمذاقی اور بد اخلاقی کی فہرست میں آتا ہے۔ جرمنی نے بھی انگریزی زبان کے بغیر ترقی کر لی۔ جاپان میں بھی کم کم ہی کوئی انگریزی سمجھتا ہے۔ چین میں انگریزی بولنے والا ڈھونڈنا ایک عذاب ہے۔ اٹلی میں بھی انگریزی ایسے بولی جاتی ہے جیسے ایک زبان فرنگ کو بولنے کا حق ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ اب بھی اس دلیل پر قائم ہیں کہ اردو اور ہماری علاقائی زبانیں ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم نے زبان دانی کو ذہانت کا معیار بنا دیا ہے۔ ملازمت کے انٹرویو ہوں یا سول سروس کے امتحانات۔ اگر آپ اچھی انگریزی بول اور لکھ سکتے ہیں تو آپ کی ذہانت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ لیکن اگر آپ وہی مطمع نظر اردو پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی میں ادا کریں تو آپ قابل اعتناء نہیں۔ زبان ذہانت نہیں ہوتی۔ زبان اظہار ہوتی ہے اور اظہار اپنی زبان میں ہی ابلاغ بنتا ہے۔

مجھے بہت سی ایسی تقریبات میں جانا ہوتا ہے جہاں مقررین کرام جی جان توڑ کر انگریزی میں خطاب کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جو سلوک وہ انگریزی زبان کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں، فرنگیوں کے خلاف اس سے بڑا جہاد نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگ اگر اردو میں خطاب کریں تو بات زیادہ سہل اور بامعنی کر سکتے ہیں۔ لیکن انگریزی کا بھوت انہیں اس طرف نہیں آنے دیتا۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ سامعین میں بھی اکثر اردو سمجھتے ہیں۔ اس دو طرفہ دشواری کا حل اپنی زبان میں گفتگو کرنا ہے۔

اپنی مادری زبان کے مقابلے میں ہم انگریزی زبان کے آگے اس بری طرح سر نگوں ہیں کہ ہم غلط انگریزی بولنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ان کی تضحیک کرتے ہیں۔ جبکہ ہم سے زیادہ تر لوگ غلط اردو بولتے ہیں اور اپنی ان غلطیوں پر فخر بھی کرتے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں انگریزی اس سے بھی غلط بولی جاتی ہے لیکن وہاں اس پر ٹھٹھے لگانے کا رواج نہیں ہے۔ وہاں لوگ اس کو اظہار کا ذریعہ سمجھتے ہیں سٹیٹس سمبل نہیں۔

زبان کا تعلق معاشرت اور سیاست سے بھی ہوتا ہے۔ اگر سول سروس کے امتحانات آج اردو زبان میں ہونے لگیں تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔ اگر ہمارے ورزاء مملکت دنیا بھر کے سربراہان کے طرح اپنی زبان میں گفتگو کریں اور مترجم کو ساتھ رکھیں تو ہمیں اپنی زبان پر فخر ہو گا۔ ہمیں اپنے بیان میں سہولت ہو گی۔ اگر ہمارے نصاب کی کتابیں اردو میں ہوں تو نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والے لوگ کوئی اور ہوں۔ اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کی تخصیص ختم ہو جائے۔

ہمارے اپنے گھر میں زبان کے حوالے سے اچھی خاصی اقوام متحدہ ہے۔ میری والدہ اہل زبان ہیں اور والد کا تعلق گجرات کے ایک پنجابی گھرانے سے ہے۔ دونوں فارسی کے پروفیسر رہے ہوئے ہیں۔ دونوں کو عربی زبان میں اچھی خاصی دسترس حاصل ہے۔ میری بڑی ہمشیرہ فارسی کی پروفیسر ہیں۔ ہم سب اردو زبان میں گفتگو کرے ہیں۔ میری اہلیہ جو صحافی بھی ہیں وہ پنجابی بولتی ہیں۔ اس خاندان کے سب بچے جن سکولوں میں پڑھتے ہیں وہاں انگریزی زبان کا چلن ہے۔ ان بچوں کے لئے سب سے مشکل پیپر اردو یا اسلامیات کا ہوتا ہے۔ اس لسانی تقسیم سے کئی نسلیں مشکل میں پڑی ہوئی ہیں۔ اس کا حل اردو زبان کا سرکاری طور پر نفاذ ہی ہے۔

اردو زبان کے نفاذ پر ہر حکومت میں بحث ہوتی ہے لیکن اس کے لئے عملی اقدمات کم ہی ہوتے ہیں۔ سرکاری زبان اور قومی زبان میں جو تخصیص ہم نے تخلیق کر دی ہے وہ دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے قومی تشخص کو منوانا چاہتے ہیں تو اردو زبان کا سرکاری نفاذ اس کی طرف پہلا قدم ہے۔ اپنی زبان پر فخر اس کا نتیجہ ہے۔ اپنے شاعروں ادیبوں کی تکریم اس کا تحفہ ہے۔

اردو زبان سے لوگوں کو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو لکھنے اور بولنے والوں کو ایک سازش کے طور پر کمتر گردانا گیا ہے۔ اس کی مثال اس سے بہتر کیا ہو گی کہ گذشتہ دنوں انگریزی کے ایک معروف ناول کا اردو ترجمہ شائع ہوا۔ اس باکمال ناول میں کئی ایسے نازک موضوعات پر بات کی گئی تھی کہ جن پر قدغنیں لگیں ہوئی ہیں۔ یہ سیاسی طنزو مزاح والا لازوال ناول قریبا ایک دہائی قبل انگریزی زبان میں شائع ہوا۔ لیکن کسی نے اس پر پابندی نہیں لگائی۔ ایک دہائی کے بعد جیسے ہی اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا اس کی اشاعت ممنوع قرار دے دی گئی۔ کاپیاں ضبط کر لیں گئیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمیں اپنی زبان سے اس لئے دور رکھا گیا ہے ہمیں اپنی زبان میں بات سمجھ آ جاتی ہے۔

اپنے والد کے ایک قطعے پر کالم ختم کرتا ہوں

بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہرگز نہیں روتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اُردو وہ زباں ہے کہ جو نافِذ نہیں ہوتی

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments