ڈاکٹر لال خان ! سرخ سلام کامریڈ


ڈاکٹر لال خان سے پہلی ملاقات بیس برس پہلے اپنے دوست کامریڈ ممتاز نواز مستوئی کے توسط سے ہوئی۔ تب سے ان کی وفات تک ان سے سیکھنے کا موقع ملا اور جب انہیں اپروچ کیا انتہائی شفقت فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب مزاجاً ایک شرمیلے آ دمی تھے اور جب کبھی پروگرام میں تشریف لاتے تو بے چین سے ہوتے، دوسروں کی بات غور سے سنتے لیکن تاثر یہ ملتا جیسے جلدی میں ہوں کیونکہ اثبات میں سر ہلاتے رہتے اور دوسرے کے سوالوں کا انہیں عام طور پر پتہ ہی ہوتا تھا۔

سوال بھی سرمایہ دارانہ نظام کے زیر سایہ پلنے والی غلامانہ سوچ کی غمازی کرتے تھے مثلاً یہ کہ اگر دنیا میں مقابلہ بازی نہیں ہو گی تو لوگ تخلیقی صلاحیتں کیوں استعمال کریں گے۔ اگر سب برابر ہوئے تو ہست درجہ کا کام کون کرے گا۔ اگر دنیا سے منافع کمانے کا رواج ختم ہو جائے تو سرمایہ کاری کون کرے گا۔ روس میں تو سوشلزم ناکام ہو گیا تو آپ ٹراٹسکائزم نکال لائے۔ وغیرہ وغیرہ

ڈاکٹر صاحب بہت تحمل سے لیکن مدلل انداز میں جواب دیتے کہ انسانوں کر درمیان مقابلہ کروانا اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ کون سیٹھوں کے جام بھرنے کے بعد گرنے والے قطرے زیادہ سمیٹتا ہے۔ یہ کہ کون زیادہ آسائشیں اور ملکیت اکٹھی کرتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نفسیات کے زیر اثر پلنے والی غلامانہ سوچ ہے۔ ہمیں ایک نئی دنیا، ایک نیا اقتصادی نظام لانا ہے جس کا مقصد منافع کے لئے نہیں بلکہ انسانی بہبود کے لئے کا کرنا ہونا چاہیے۔

دنیا میں پیداواری قلت اس لئے کی جاتی ہے کہ شرح منافع برقرار رکھی جا سکے۔ مارکیٹ کی معیشت جب فیصلہ کرتی ہے کہ کون سا ادب پارہ زیادہ اچھا ہے، کون سی فلم زیادہ اچھی ہے، کون سا کھیل زیادہ فائدہ مند ہے تو ظاہر ہے اس کے معیار میں بھی گراوٹ ہو گی، وہ تخلیقی شعور کی بجائے مارکیٹنگ کے نقطئہ نظر سے پراڈکٹ بنائے گا۔ اب ذرا سوچیں کہ ہم کوئی کام انسانوں کی بہبود کے لئے کرتے ہیں اور ہمیں یہ فکر نہیں ہے کہ یہ بک سکے گی یا نہیں۔

سرمایہ کار منافع کما سکے گا یا نہیں۔ تشہیر کے لئے پراڈکٹ بنانے سے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑیں گے یا نہیں۔ ایسے میں ہم اپنے پورے تخلیقی شعور کو بروئے کار کا سکتے ہیں۔ یاد رہے انسان کی بیگانگی کی بڑی وجہ اس کام سے بیگانہ ہونا ہے جو ہم روزی روٹی کی خاطر کررہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے بغیر کسی ستائش و صلے کے تدریس کا کام کریں، کھیل کا انتخاب کریں یا انٹرٹینمنٹ کی کوئی سرگرمی کریں تو زندگی کم پڑتی نظر آ ہے گی۔

اور یہ کام انسان کی بہبود کے لئے ہوں گے کسی سیٹھ کے منافع کے لئے نہیں۔ ڈاکٹر لال خان ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہم اصل انسان اس وقت بنیں گے جب کسی لالچ، خود غرضی اور عدم تحفظ کے بغیر دوسروں سے مل جل سکیں گے حتی کہ خدا سے بھی تعلق کی نوعیت خوف یا عدم تحفظ نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے اس سارے خواب کو حاصل کرنے کے لئے ہماری زندگی بہت چھوٹی ہے کیونکہ انسان کے استیصال کی تاریخ بہت گہری اور گھناؤنی ہے۔ سیاست، جمہوریت، کاروبار، تعلق، سماج غرض یہ کہ ہر سطح پر سوچنے کا تناظر بدلنے کی ضرورت ہے۔ عمل کی سمت درست ہونا ضروری ہے اور ڈاکٹر صاحب اس انقلاب میں اپنا حصہ کما حقہ ڈال گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments