ڈاکٹر لال خان کی جدوجہد کو سرخ سلام


کئی سال قبل دوستوں جن میں روف خا ن لُنڈ ایڈوکیٹ، گلزار لودھی کے ہمراہ لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور جانے کا مقصد الحمرا ٓرٹس کونسل میں منعقد ہونیو الی کانگریس میں شرکت کرنا تھی۔ دوستوں کے ساتھ کانگریس میں شرکت ہوئی۔ سارا دن الحمراکے ہال میں بیٹھ کر ان عظیم لوگوں کو سنتا رہا کچھ باتیں سمجھ میں آرہی تھیں کچھ باتیں جوعام فہم نہیں تھیں کے لیے مطالعے کی ضرورت تھی۔ پہلی بار ایک نئی دنیا سے روشناس ہوا تھا اس وقت دل اور دماغ کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ لگتا تھا کہ کوئی بھونچال آگیا ہے۔

کوئی تیز آندھی چل رہی ہے جو شاید ہر پرانے نظریے اور سوچ کے نشان مٹانے پر بضد ہے۔ ہال میں اردگرد نوجوان کا جم غفیر اسٹیج پر مقررین کی گفتگو کو سانس روکے سن رہا تھا۔ اس مرحلے پر ایک بات بہت دلچسپ تھی ہر بات پر ایک سوال ذہن میں بنتا مگر اگلے ہی لمحے اس سوال کی وضاحت ہوجاتی۔ ایسے میں منو بھائی نے گفتگو شروع کی۔ منو بھائی سے تعارف ان کے لکھے گئے ڈراموں کی وجہ سے تھا منو بھائی سے مکمل آگاہی اس دن ان کی تقریر سے ہوئی۔

بریک کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا تو ایک شخص کو اسٹیج پر تقریر کے لئے مدعو کیا گیا۔ مقرر شلوار قمیض میں ملبوس تھا سر کے بال کچھ کالے زیادہ تر سفیدی کی طرف مائل تھے۔ مقرر نے اپنی گفتگو شروع کی اور بہت دیر تک مارکسسٹ نظریات کی وضاحت کرتا رہا۔ گفتگو سن کے کیفیت کچھ یوں تھی کہ جیسے اندھیرے سے کسی شخص کو ایک دم روشنی میں لایا جائے تو اس کی آنکھیں چندھیاجاتی ہیں اور کچھ دیر بعد پوری دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے کچھ یہی حال تھا کہ جیسے اندھیرے سے روشنی کی طرف کا سفر کیا ہو۔

یہ شخصیت ڈاکٹر لال خان تھے۔ یہ میرا ڈاکٹر لال خان سے پہلا تعارف تھا۔ پھر یہ کیفیت رہی کہ ڈاکٹر لال خان کو سنے بغیر سکون نہیں ملتا تھا۔ اگلے سال لاہور میں ہونے والی کانگریس میں دوبارہ شرکت کی۔ اس کے بعد آزاد کشمیر راولا کوٹ میں ہونے والی کانگریس میں ڈاکٹر لال کو سننے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ کمال شخص جس کے پاس آپ کے ہر سوال کا جواب تھا۔ جس کے پاس ہر الجھن کا حل موجود تھا۔ جس سے مل کر پہلی بار اپنے گردوپیش اپنے معروض سے واقفیت اور شناسائی حاصل ہوتی تھی۔

ایک سحرانگیز شخصیت ایک شاندار مقرر اور بلاشبہ عصر حاضر کا ایک عظیم دانشور ڈاکٹر لال خان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے رول ماڈل اور استاد کا درجہ رکھتا تھا۔ ڈاکٹرلال خان 2 دسمبر 1956 میں پیدا ہوئے۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ زمانہ طالب علمی میں تھے جب بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی بغاوت کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو ڈاکٹر لال خان اپنے دوستوں کے ہمراہ ان مظاہروں میں پیش پیش رہے۔

مارشل لا دور میں گرفتار ہوئے اورایک سال قید رہے۔ کچھ مدت کے لئے رہائی ملی تو سزائے موت کے خوف سے جلاوطن ہوکر دوستوں کے ساتھ ہالینڈ چلے گئے۔ دوران جلاوطنی ایمسٹر ڈیم میں وریجی یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی اور ہالینڈ میں ہی مقیم رہے۔ جنرل ضیا کا عہد ختم ہوا تو 1988 ء میں وطن واپس آئے مگر ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنا پیشہ چھوڑ دیا۔ پاکستان کے محروم وپسے ہوئے طبقات کی محرومیاں دور کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات پر مبنی جدوجہد کو شروع کیا۔

ڈاکٹر لال خان ایشین مارکسی جائزہ کے ایڈیٹر اور پاکستان دفاعی مہم کے بین الاقوامی سیکرٹری تھے۔ مارچ 2011 کو جدوجہد کا سب سے بڑا کانگریس لاہور میں ہوا۔ جدوجہد کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے اور معاشرتی تبدیلی اور انقلاب کے لئے نئی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے یہ سالانہ کانگریس منعقد کی گئیں۔ اور اس کے روح رواں ڈاکٹر لال خان تھے۔ ڈاکٹر لال خان پاکستان کی مارکسی تنظیم جدوجہد کے صف اول کے رہنما اور جدوجہد رسالے کے ایڈیٹر تھے۔

وہ ڈیلی ٹائمز اور روزنامہ دنیا کے لیے باقاعدگی سے مضامین لکھتے رہے۔ ان کی تصانیف میں Pakistan ’s Other Story; The 1968۔ 9 Revolutionکو ایک مقام حاصل ہے۔ ڈاکٹر لال خان کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے اور طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعد 21 فروری 2020 کو انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر لال خان نے اپنے پیچھے جو کام چھوڑا ہے اس کو ایک مدت تک یاد رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر لال خان کی جدوجہد کو سرخ سلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments