بلاول کے چہرے پر جمہور کا کوسٹیوم


کیونکہ محرابپور میرے شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے تو وہاں کی سیاست سے میری کافی جان پہچان ہے۔ بشمول محراب پور کے ساری سندھ کی صحافت یوں سمجھیں کہ پیپلز پارٹی کی ڈکٹیٹرشپ کے عتاب کا شکار ہے۔ سندھ کے اندر دو قسم کے صحافتی گروپس ہیں۔ ایک گروپ جو پرو گورنمنٹ کام کرتا ہے جس کو گورنمنٹ، اس کے جاگیردار منسٹرز، قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندے لیڈ کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو عموما چھوٹے صحافی ہیں جو مزاحمت کرتے ہیں۔

اس صحافتی گروپ میں خودساختہ سالار جو کہ کسی عام جاگیردار سے کم نہیں جن کا ریموٹ کنٹرول انہی مافیا کے پاس ہے۔ اور یہی نمائندے ان کے سرپرست ہیں، اور دوسری طرف مزاحمت کرنے والے صحافیوں کو جب وہ پولیس سے نہیں نمٹ سکتے تو کسی نا کسی صحافی کو آگے کردیتے ہیں۔ اور صحافی پر داخل کردہ پرچے کا مدعی صحافی بن جاتا ہے۔ یوں معاملا الجھ جاتا ہے جس کی مثال آپ کو سندھ کے بڑے شہر سکھر میں ملے گی جہاں صحافیوں کی مدعیت میں صحافیوں پر کوئی ساٹھ کے قریب جھوٹے مقدمے درج ہوئے اور بقایہ پولیس اور ان کے پیڈ ایجنٹس کی مدعیت میں۔ جن کے خلاف ایک صحافتی تنظیم نے کچھ ماہ پہلے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا جہاں صحافیوں سے ٹالکس کے لئے صوبائی وزیر سعید غنی پہنچا اور صحافیوں کو تسلی دی کہ اب آپ پر کوئی جھوٹا مقدمہ درج نہیں ہوگ اس تسلی کے بعد بھی تین چار جھوٹے مقدمات رپورٹ ہوئے۔

میڈیا سینسر شپ ملک کا ایک اہم اشو ہے۔ لیکن میڈیا سینسر شپ میں چند مخصوص اداروں کے سوا عام طور پر سندھ کے صحافی جاگیردار اور پولیس کی زد پہ ہیں۔ جس کا کسی ایوان میں کہیں بھی کوئی تذکرہ نہیں ہوتا کیوں کہ وہی نمائندے جو چلا چلا کر ملکی اسٹیبلشمنٹ پر لفظی گولا باری کر رہے ہوتے ہیں انہی کے اپنے حلقوں میں صحافی لوکل سینسر شپ، ہراسمنٹ، اور جھوٹے مقدمات کا شکار ہیں۔ اگر کوئی ہاتھ آجائے تو اسے موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔

لوکل سطح کے چھوٹے censorship کی مثال مٹھی تھرپارکر کی لیں تو مٹھی اسپتال میں غذائی قلت سے ہونے والی اموات کو رپورٹ کرنے سے روکنے کے لیے سندھ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے ہسپتالوں میں میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی ہے اور وہاں پیمرا کے جھوٹے بینرز آویزاں کردیے گئے ہیں۔ اور وہاں کے رپورٹرز کو بھی مختلف ہربوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔

سول ہسپتال مٹھی اور گردنواح میں دوائیوں کی شدید قلت ہے۔ تھرپارکر میں وزارت صحت سندھ نے 2019 میم سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے جھوٹے نوٹیفیکیشن کے پینافلیکس چھپوا کر ہسپتال میں آویزاں کردیے ہیں۔ اس نوٹیفیکیشن پر رد عمل دیتے ہوئے پیمرا نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر ٹویٹ کیا تھا کہ یہ نوٹیفکیشن جعلی ہے۔ ایک جعلی نوٹیفیکیشن کو جواز بنا کر صحافیوں کے خلاف محاذ کھڑا کیا جا رہا ہے اور عنقریب جھوٹے مقدمات کا تانتا بندھنے والا ہے۔ ملکی لیول کی سنسر شپ ہو یا نچلی سطح پر صحافیوں کو کام نا کرنے دینا دونوں اطراف عزائم وہی ہے کہ اپنے کالے کرتوت چھپائے جا سکیں

حال ہی میں صحافیوں پہ داخل کیے گئے سیکڑوں جھوٹے مقدمے زیر بحث بھی رہی ہے ہیں جن کا ابتدائیے میں ذکر کرچکا ہوں۔ جس پر اپنے ایک سینئر صحافی کا جملہ قوٹ کروں گا کہ صحافی زندہ ہے تو اس پر 7 ATA کا قلم لگتا ہے اگر وہ مارا جائے تو اس کے قاتل ملتے نہیں نامعلوم افراد کے خلاف 302 کا پرچہ کاٹ کر وہ صحافی کی قبر پر کتبہ بنا کر لٹکا دیا جاتا ہے۔ دو تین دن اس کی شہادت کا رونا رویا جاتا ہے اس کے بعد اس کی بیوہ یتیم بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر ہر کوئی بھول جاتا ہے۔

سندھ کے علاقے محراب پور سے تعلق رکھنے والے صحافی عزیز میمن نے بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ میں کرائے کے لوگ لائے جانے کی خبر دی تھی جس کے بعد سے انہیں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت بشمول ایک سٹنگ ایم این اے سے دھمکیاں موصول ہونی شروع ہو گئیں۔ صورتحال یہ بنی کہ صحافی کچھ عرصہ کے لئے اسکرین سے غائب ہوگیا معاملات نا سلجھے تو اسلام آباد چلاگیا۔ جس کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کو تحفظ دلانے کی یقین دہانی کرائی اور پارٹی پر لگنے والے الزامات کو مسترد کیا۔

لیکن صحافی کو مسلسل دھمکیاں ملنے کے بعد صحافی عزیز میمن نے ایک ویڈیو پیغام بھی دیا تھا جس میں اس نے واضح کیا کہ میرا تعلق کسی جماعت سے نہیں ہے میں ایک نیوٹرل آدمی ہوں اور میں نے بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ میں بلائے گئے لوگوں کو پیسے دینے کی سٹوری بریک کی تھی جس کے بعد پولیس مجھے دھمکیاں دے رہی ہے جب کہ میرے اہل خانہ کو بھی دھمکیاں مل رہی ہے لہذا مجھے انصاف دیا جائے۔ جس میں وہ پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت اور پولیس اہلکاروں کے نام لے کر تحفظ کی بات کرتا ہے۔ بشمول حامد میر سندھ کے بڑے صحافی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ عزیز میمن سے پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت نالاں تھی۔

کچھ دن قبل اسی صحافی عزیز میمن کی لاش بھیجی گئی۔ کرائیم سین یوں تھا کہ عزیز میمن کو منگوا کر اسے قتل کرکہ اس کے کیمرا کے لوگو کی وائر اس کے گلے میں ڈال دی گئی اور اس کے گھر کی طرف آنے والی نہر میں نعش بہا دی گی تھی۔ اور شاید ہی سندھ کا کوئی صحافی تھا جس کی موت پر عالمی میڈیا تک رپورٹ ہوئی، صوبائی اور وفاقی ایوانوں میں آواز اٹھی لیکن سارا ملبہ مبینہ طور پر ملزم کیمیرامین پر گرا کر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ ذرائع کے مطابق شہید صحافی کے ورثہ پر شدید دباؤ ہے کہ وہ شہید صحافی کے کسی بیان کی تائید نا کریں۔

یار کوئی ہو جو اظہار کی آزادی کی بات کرنے والے اس بلاول بھٹو کے چہرے کو نوچ کر یہ جمہور کا Costume اتار پھینکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments