4 مارچ: لہو میں لہراتا جدوجہد کا پرچم


یوں تو برصغیر میں طلباء سیاست کے تمام بڑے کارنامے اور واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں، اور یے بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں مظلوم اقوام میں انقلاب کا رومانس ہمیشہ طلباء نے پیدا کیا ہے، مگر پاکستان کے قیام سے لے کر بنگلادیش کی آزادی تک طلباء نے نہ صرف جبر و تشدد برداش کیا ہے بلکہ زندانوں کی عقوبتیں برداش کرنے کے ساتھ ساتھ شھادتیں بھی نوش کی ہیں۔

مگر جب بھی انقلابی جدوجہد اور قومی تحریکوں کی بات آتی ہے تو طلباء کا ذکر سرفہرست ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یے بھی ہے کہ ہر دور میں اس طبقے نے ظلم و بربریت کا سامنا کیا ہے، چاہے وہ تعلیمی اداروں کے اندر موجود انتظامیہ کی طرف سے ہو یا ریاست کی طرف سے۔

سندھ میں اگر طلباء سیاست کا جائزہ لیا جائے تو 4 مارچ کا 1967 کا دن اہمیت رکھتا ہے۔ یے دن ہی تھا جس نے سندھ کی قومی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا اور سندھی عوام میں انقلابی جدوجہد کا جوش و جذبہ پیدا کیا۔

دراصل وہ زمانہ جنرل ایوب خان کا تھا اور اس دور میں انقلابی جدوجہد، قومی حقوق کی بات کرنا بڑا مشکل تھا۔ اس واقعہ کا پس منظر بھی ون یونٹ سے جڑا ہے اور ون یونٹ کا تو سب کو علم ہوگا کہ وہ تمام صوبوں کے لئے ایک Death Certificate تھا، کیونکہ وہ صوبے خود مختار اکائیوں کے طور پر پاکستان میں شامل ہوئے تھے۔

4 مارچ، سندھ کی ماضی قریب کی سیاسی تاریخ میں سندھی طلبا کی سیاسی جدوجہد، جرات اور عمل کا ایک یادگار دن ہے۔ 4 مارچ کے بعد سندھ کے طلباء کی سوچ اور فکر پر نئے آسمان کھل گئے اور وہ جان چکے تھے کہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔

4 مارچ 1967 میں سندھ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج (اب لمس یونیورسٹی) اور مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء اس وقت حیدرآباد کے کمشنر مسرور حسن کی مخالفت میں حیدرآباد میں ایک احتجاج کرنے آ رہے تھے، کیونکہ کمشنر مسرور حسن سندھ یونیورسٹی کے تعلیم دوست اور سندھ دوست وائس چانسلر حسن علی عبدالرحمان کو مسلسل تنگ کر رہا تھا، طلباء جیسے ہی حیدرآباد کی راجپوتانہ ہسپتال کے پاس پہنچے تو کمشنر کی سربراھی میں پولیس نے ان پر شیلنگ اور فائرنگ کرنا شروع کردی۔ اس کے بعد جیسے ہی تمام طلباء گاڑیوں سے اترنے لگے تو ان پر سخت تشدد کیا گیا اور لاتعداد شاگرد زخمی ہوگئے اور دیگر گرفتار کیے گئے۔

موجودہ پیپلز پارٹی کے ایم این اے نواب یوسف ٹالپر، جو کہ 4 مارچ کی تحریک کا کردار بھی ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ: ”4 مارچ کی جدوجہدصرف شاگردوں کی ہی جدوجہد تھی، اور اس میں کسی بھی پارٹی کا کوئی کردار نہیں تھا البتہ طلباء میں سیاسی شعور پیدا کرنے میں اس وقت سائیں جی ایم سید کا بڑا کردار تھا۔ باقی وہ تحریک اضافی تعلیمی فیس ختم کروانے یا شاگردوں کے مسائل حل کرنے کے لئے نہیں تھی مگر وہ تحریک ایوب خان کے خلاف جدوجہد کی صورت اختیار کر چکی تھی جس کا فائدہ بعد میں سیاسی جماعتوں کو ہوا، “

سندھ میں قومی حقوق کی جدوجہد کا رومانس پیدا کرنے میں 4 مارچ کے واقعے کا بڑا کردار تھا۔ سندھ میں ون یونٹ کے خلاف جو نفرت اور غصہ موجود تھا اس نے 4 مارچ کے بعد ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی اور اس کا نتیجا یے نکلا کے ون یونٹ دفن ہوگیا اور صوبوں کی حیثیت بحال ہوگئی۔

4 مارچ کے حوالے سے سندھ کے معروف شاعر شیخ ایاز نے ایک سندھی رسالے ’ماہوار سہنی‘ میں لکھا تھا کہ: ”چار مارچ سندھ کا مئے ڈے May Day ہے۔ آج کے دن حیدرآباد میں اس ظلم کے خلاف لہو میں لال جھنڈا لہرایا تھا جس نے سندھ کے صوبے، اس کی زبان، ثقافت، سیاسی آزادی اور اقتصادی برابری کو ختم کرنے کی سازش کی تھی۔ مجھے کہا گیا تھا کہ آج کے دن حیدرآباد میں موجود رہوں کیونکہ حیدرآباد سندھ کی سیاست اور ثقافت کا مرکز ہے، اور وہاں ہی سندھ سے ہونیوالے ظلم کے خلاف پہلا موثر آواز بلند ہوا تھا اور سندھی شاگردوں نے اپنا لہو بہا کر جئے سندھ کے نعرے سے جھوٹ کی دیوار کو ہلا کر رکھ دیا تھا، “

آج تو اس طرز کی شاگرد سیاست بھی نہیں رہی، اس کے بہت اسباب ہیں، نہ ہی شاگردوں کی کوئی تحریک کے اور نہ ہی علی حسن عبدالرحمان جیسا کوئی اصول پسند وائس چانسلر، مگر ان طلباء ساتھیوں کی قربانی اور جدوجہد کے حوالے سے 4 مارچ آج بھی سندھ کی سیاسی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہے اور ہم بحیثیت شاگرد سیاست کا حصہ ہونے کے اس جدوجہد کو نہ صرف خراج تحسین پیش کرتے ہیں بلکہ شاگرد ساتھیوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے بھی 4 مارچ کا حوالہ دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

4 مارچ، شاگرد جدوجہد کے عروج کا زمانہ تھا، ان دنوں سندھ میں سیاسی سوچ اور مزاحمتی جدوجہد نے ذور پکڑا۔ جب ایوب خان کے دور میں سندھی زبان پڑھانے اور لکھنے پر پابندی تھی اور تعلیمی اداروں میں نوکرشاہی کی مداخلت تھی تو طلباء یونین نے نہ صرف ان عناصر کو للکارا بلکہ جدوجہد کا پرچم بلند کیا اور پھر تمام سندھ دشمن منصوبوں بشمول ون یونٹ کے خلاف میدان عمل میں نکل پڑے۔

4 مارچ 1967 کا دن سندھ کی سیاست میں Turning Point ثابت ہوا اور شاگردوں کے بہتے لہو نے سندھ کی عوام میں قومی جذبہ پیدا کیا۔ شاگردوں کی اسی قربانی اور جذبہ کو دیکھ کر سندھ یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے سائیں جی ایم سید نے کہا تھا کہ: ”میں سندھ کے وڈیروں، جاگیرداروں اور پیروں کو آزما چکا ہوں، مجھے سندھ کے آجپے اور آزادی کا راستہ کہیں بھی نطر نہیں آیا اس لئے سندھ کا کیس میں آپ شاگردوں کے سامنے لایا ہوں، “

سائیں جی ایم سید تاریخ کے تمام بڑے تجربات اور مشاہدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کے سندھ کی اگر کوئی مالکی اور وارثی کر سکتا ہے تو وہ شاگرد طبقہ ہے۔

سندھ کے معروف سیاستدان اور قانون دان رسول بخش پلیجو نے 4 مارچ کے حوالے سے لکھا تھا کہ: ”4 مارچ 1967 نہ صرف سندھی شاگردوں کی تحریک کی شروعات کا دن ہے مگر وہ سندھ کی قومی جدوجہد کا ایک بڑا نشان ہے۔ اس دن سندھی قوم کے ایک مجاہد دستے نے آگے بڑھ کر سندھ دشمن قوتوں کا سامنہ کرکے اپنا لہو بہایا۔ اس دن سندھی شاگردوں نے قومی جدوجہد کی ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور بڑے عرصے تک وہ ڈور اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر چلے۔ سندھی شاگردوں کی وہ جدوجہد پاکستان بننے کے بعد سندھی قومی جدوجہد کی پانچھویں لہر تھی اور اسے پہلے چار لہریں جی ایم سید، شیخ ایاز، ابراھیم جویو اور حیدربخش جتوئی کی سربراہی میں سیاسی، علمی اور ادبی بنیادوں پر چلی تھی، “

4 مارچ کا دن ہر سندھی طلباءکے لئے ایک عظیم دن ہے کیونکہ اس دن کا ہی نتیجہ تھا کہ سندھ کی قومی سیاست کو ایک نیا موڑ ملا اور سندھی قوم میں جدوجہد کا رومانس بڑھنے لگا۔

4 مارچ کے بارے میں جام ساقی نے لکھا تھا کہ: ”4 مارچ کی لاٹھی چارج کے بعد 11 مارچ 1967پر وہ حیدرآباد کے مزدور ہی تھے جنہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرکے ہماری آزادی کا مطالبہ کیا“۔

اس واقعے کے ہیروز میں یوسف لغاری، مسعود نورانی، یوسف ٹالپر، حئی پلیجو، اعجاز قریشی، مجیب پیرزادو اور جام ساقی شامل تھے۔

پروفیسر اعجاز قریشی اپنی کتاب ’ون یونٹ اور سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ: ”4 مارچ کی جو تحریک شاگردوں نے شروع کی وہ ون یونٹ کے خاتمے تک جاری رہی، سندھ یونیورسٹی کے 207 طلباء شام کے وقت حیدرآباد آ رہے تھے تو راجپوتانہ ہسپتال کے قریب ان کو روکا گیا اور ان شیلنگ، لاٹھی چارچ کرکے سخت زخمی کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا، “۔

4 مارچ کی تحریک نے سندھ کی سیاست پر بڑا اثر چھوڑا، اس میں سندھ یونیورسٹی کے طلباء کا اہم کردار تھا، جب یونیورسٹی کی چھٹیاں ہوئی تو تمام شاگرد اپنے اپنے گاوٗں اور شھروں میں پھیل گئے اور وہاں جا کر ون یونٹ کے خلاف تحریک کو منظم اور متحرک کیا ون یونٹ کے ساتھ سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلانے، ریلوے اسٹیشن پر سندھی میں بورڈ لگانے، جو سندھی شاگرد بار بار گرفتار ہوتے تھے ان کی آزادی کے لئے مظاہرے کرنا بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی سیاست میں شاگردوں نے ہمیشہ اپنا مرکزی کردار ادا کیا ہے اور سندھ کے قومی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد میں سرفہرست رہے ہیں۔

سندھ میں آج بھی اس دن کو بڑے پئمانے پر یاد کیا جاتا ہے اور طلباء کی جانب سے ریلیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ فکری اور سیاسی پروگرام کرکے 4 مارچ کو یاد کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments