سسی پنوں کی داستان اور بھنبھور


سندھ میں محاورتاً کہا جاتا ہے کہ فلاں بندہ اپنے ”گھر تڑ“ والا ہے۔ یہاں تڑ سے مراد پانی ہے۔ دنیا کی سبھی قدیم civilizations دریاؤں کے کناروں پر پروان چڑھیں۔ شہر ندیوں پر آباد ہوئے اور ندیوں کے سیلاب اور کبھی رخ بدلنے کی وجہ سے برباد ہوتے رہے۔ موہنجو دڑو کے حوالے سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ غالباً دریائے سندھ میں طوفان کی وجہ سے لوگ نقل مکانے کرکے کسی محفوظ جگہ جاکر آباد ہوئے ہوں گے۔ اگر کسی اور قدرتی آفت یعنی زلزلے کی وجہ سے شہر غرق ہوا ہوتا تو کھدائی کے دوران ہزاروں انسانی ہڈیاں اور ڈھانچے مدفون پائے جاتے اور دیواریں اور گھر ملبے کے ڈھیر کی صورت ملتے۔

مدفون شہروں کی کھدائی تہہ در تہہ ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ شہر تاریخ کے مختلف ادوار میں آباد و برباد ہوتے۔ شکلیں بدلتے۔ نئے نئے حاکم وقت دیکھتے آتے ہیں۔ ان پر ہر زمانہ مختلف مذاہب و عقائد کا رنگ چڑھاتا ہے۔ ہر دور کے اپنے ہیروز اور ولین ہوتے ہیں۔ اور جب ان برباد شہروں کی excavation یعنی کھدائی کا کام ہوتا ہے تہہ در تہہ نئی نئی کہانیوں کے سرے پائے جاتے ہیں جن کو جوڑ کر محقق تاریخ کو ایک شکل دیتے ہیں جس میں وہ برباد شہر اپنے مکمل تعارف کے ساتھ سامنے آنے لگتا ہے۔

ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ اس مملکت خداداد میں تاریخ۔ تمدن اور ثقافتی ورثے کو کبھی سنجیدہ ہی نہیں لیا گیا۔ کوئی بھی قوم اپنے کل سے کٹ کر کبھی آنے والے وقت میں اپنی جداگانہ شناخت قائم نہیں رکھ سکتی مگر ہماری بیگانگی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے سچ سے ڈرتے ہوئے گذشتہ کل کے اسراروں کا پردہ چاک کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔

پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل انگریز سرکار نے آثار قدیمہ کے حوالے سے قابل تعریف اقدامات کیے۔ موہنجو دڑو کی دریافت سے دنیا کے سامنے حیرت کے نئے جذیرے نمودار ہوئے۔ ایک ایسی تہذیب جس سے ثابت ہوا کہ وادی مہران کے باسی دنیا کے سب سے مہذب ترین لوگ گردانے گئے۔ مگر پاکستان بننے کے بعد اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام سامنے نہیں آیا۔ آثار قدیمہ اور نوادرات کا کھاتہ وفاقی سبجیکٹ ہونے کی وجہ سے بالخصوص سندھ کے آثار قدیمہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کے کھاتہ جات حکومت سندھ کو منتقل ہوئے اور 2016 میں ایک شاعر و ادیب سید سردار شاہ وزیر ثقافت، سیاحت و نوادرات مقرر ہوئے تو جیسے مردہ گھوڑے میں جان پڑنے لگی۔ اور بہت ساری کلچرل ایکٹیوٹیز کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر آثار قدیمہ کی excavation اور restoration کے کام شروع ہوئے جن کا سہرا ڈی جی اینٹی کیوٹیز و ثقافت منظور احمد قناصرو کے سر جاتا ہے۔ اس وقت موہنجو دڑو اور کئی آرکیالاجیکل سائیٹس کی ریسٹوریشن کے کام کے ساتھ بھنبھور۔ چانہوں جو دڑو اور برہمن آباد کی excavation کا کام جاری ہے۔

بھنبھور ایک لوک رومانوی داستان ٰٰسسی پنوں ٰ کے حوالے سے مشہور ہونے کے ساتھ پہلی صدی سے وادی سندھ کا معاشی ہب تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ تاریخدان اس شہر کو ہی دیبل بندر مانتے ہیں جوکہ سندھ کا تیرویں صدی تک سب سے بڑا بندرگاہ رہا۔ یہ برباد شہر کراچی شہر سے تقریبن ساٹھ کلومیٹرز کے فاصلے پر ٹھٹھہ کے شہر گھارو کے قریب واقع ہے۔ جہاں حکومت سندھ کے antiquities department اور اٹالین آرکیالاجیکل ٹیم کی مشترکہ excavation کا کام جاری ہے۔

اس حوالے سے 19 فروری 2020 کو اٹالین ٹیم اور اینٹی کیوٹیز ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مختلف یونورسٹیز کے طلبا و طالبات کے سامنے بھنبھور کی کھدائی کے کام کے حوالے سے جامع بریفنگ دی گئی۔ جس کا عنوان The Technical session on the excavation season of Bhanbhor 2020 رکھا گیا تھا۔ جس میں اٹالین ٹیم نے Excavation کے حوالے سے جامع تفصیلات پیش کیے۔ اس تقریب سے خطاب کے دوران وزیر ثقافت۔ سیاحت و نوادرات سید سرادر شاہ نے آثار قدیمہ کی طرف وفاقی حکومت کی روش کی شکایت کے ساتھ کہا کہ ہریٹیج کے حوالے سے سیلیبس کو اپڈیب کرنے سے ہمارے بچے اپنے ماضی سے جڑ سکتے ہیں۔

بھنبھور کے شہر کی کھدائی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اس شہر کی قدامت کا اندازہ لگایا جا سکے گا کہ اس شہر نے سسی پنوں کی لازوال محبت کے ساتھ اور کون سے ادوار دیکھے اور اس کی بربادی کی وجہ کا رہی ہوگی۔ اس شہر کو مقامی لوگ ”سسی کا ٹکر“ بھی کہتے ہیں۔ سسی نام کا مطلب ”چاند جیسی“ ہے اور سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرات شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سات سورمیوں میں سے ایک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments