بدعنوانی ایک نفسیاتی خرابی ہے


آج کل وطنِ عزیز میں ہر طرف بدعنوانی اور کرپشن کا شور ہے۔ حکومتی ایوانوں سے لے کر مزدور اور چپڑاسی تک کرپشن کے راگ الاپ رہا ہے۔ حکومتی وزراء کبھی پچھلی حکومتوں کو بدعنوان کہتے ہیں تو کبھی قوم کے لوگوں کو ٹیکس چور۔ ویسے تو یہ اس ملک میں ایک روایت ہی چل نکلی ہے کہ ہر آنے والے حکومت ہر گزری حکومت کو بے ایمان، بدعنوان، نالائق اور ملک کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور جب اس کی اپنی مدت پوری ہوجاتی ہے پھر اگلی آنے والی حکومتِ وقت یہی راگ الاپنے لگتی ہے۔ عوام پھر سے یہ یقین کر لیتی ہے کی پچھلی حکومت بے ایمان اور بدعنوان تھی مگر موجودہ حکومت کچھ نہ کچھ ضرور کر دکھائے گی۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس وطنِ عزیز میں بسنے والے لوگوں کے حالات جوں کے توں ہیں اور حکومت کی آنی جانیاں لگی ہوئی ہے۔

ایک فرد کے مزاج سے آپ پوری قوم کے مزاج کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہر فرد اپنی قوم، مذہب اور ملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ایک فرد کے کردار سے اس کے عقیدہ کے اس کی زندگی پر اثرات، ملکی تربیت اور قومی مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی امریکن گورا انگریز آپ کے ساتھ اچھائی سے پیش آتا ہے اس کے کردار سے وقت کی پابندی، انسانیت کی عزت اور اپنی قوم کی خدمت کا جذبہ نظر آتا تو آپ اپنے دماغ میں ایک رائے بنا لیتے ہیں کہ امریکن بہت اچھے ہوتے ہیں اور انتہائی ترقی یافتہ ہیں۔

اس کے برعکس اگر کوئی افریقی آپ کو سڑک پر لوٹ لے اور غیرمہذب رویہ ظاہر کرے تو آپ کی رائے افریقی لوگوں کے بارے میں یہی بنتی ہے کہ یہ لوگ ڈکیت ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ آپ کا واسطہ صرف ایک فرد چاہے وہ گورا انگریز ہو یا کالا افریقی سے پڑا ہے اور آپ نے امریکی اور افریقی لوگوں کے بارے میں ایک مستند رائے قائم کر لی ہے۔ اب یہ رائے نہ صرف آپ کے ذہن میں ہمیشہ رہے گی بلکہ آپ جابجا اس کا اظہار بھی کریں گے۔

حکمرانوں کو برا کہتے کہتے اس قوم کا مزاج ہی بگڑ گیا ہے۔ ہم کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی ناکامیوں کو پہلے اور کامیابی کو بعد میں سوچتے ہیں۔ ہمیں ناکامی کا خوف یا یقین کامیابی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ امریکہ کے سائنسدانوں نے ایک گروپ پر مسلسل تین سال تحقیق کے بات یہ نتائج شائع کیے ہیں کہ کھیلوں کے مقابلے میں ہارنے والے کھلاڑی مقابلہ سے پہلے ہی بد دل اور پریشان ہوتے ہیں جبکہ جیتنے والے پْراعتماد اور مطمعین ہوتے ہیں۔

ہماری قوم کا مزاج ہی منفی ہوگیا ہے۔ پیدا ہوتے ہی مرنے کی فکر، گاڑی میں بیٹھتے ہی حادثے کا ڈر، پہاڑ پر چڑھتے ہی کھائی میں گرنے کا خوف، سکول میں داخل ہوتے ہی فیل ہونے کا خدشہ اور یہاں تک کہ مرنے کے بعد جہنم میں جانے کا خوف اس قوم کے اندر رَچ بس گیا ہے۔ لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے ان تمام خوف اور خدشات کے باوجود ہم لوگ کامیاب ہونے والی باتوں، اقوال اور اعمال پر عمل کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا ہم میں سے ہر شخص اپنی ناکامی کا ذمہ دار ہمیشہ دوسرے شخص کو ہی ٹھہراتا ہے۔ ہر ناکام شخص کو یہ یقین ہے کہ اگر میرے والدین، میرے بیوی بچے یا میرے رشتہ دار مجھے فلاں کام کرنے دیتے تو میں کامیاب ہوجاتا۔ الغرض ہر شخص کے پاس اپنی ناکامیوں کی تاریخ اور ذمہ داران اشخاص کی ایک لمبی فہرست موجود ہوتی ہے۔ اور جب کچھ نہ بن پائے تو پھر قسمت کو کوستا ہے کہ میرے تو نصیب ہی ایسے تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے اپنی کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار فردِ واحد ہی ہوتا ہے۔ اِسی طرح فرد یا افراد کی ناکامی ہی اصل میں ریاست کی ناکامی ہوتی ہے۔

لیکن اس کے برعکس جب ہم ترقی یافتہ اور کامیاب عوام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں واضح فرق اِن کی سوچ کا نظر آتا ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہی مرنے کی فکر میں ہوتے ہیں جبکہ وہ خدا کی دی ہوئی حسین زندگی کو بھرپور جینا چاہتے ہیں۔ ہم انسانوں سے نفرت اور غصے سے پیش آتے ہیں جبکہ وہ ناصرف انسانوں سے بلکہ جانوروں سے بھی محبت سے پیش آتے ہیں۔ ہم اپنے ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں جبکہ وہ اپنی ناکامیوں کی وجہ اپنے ہی کوتاہیوں کو سمجھتے ہیں اور پھر دوبارہ بھرپور طریقے سے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل اپنی ناکامیاں اور دوسروں کی کامیابیاں ہی بدعنوانی کو جنم دیتی ہیں۔ ناکام انسان کامیابی کے لئے شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے اور جلد سے جلد کامیاب لوگوں کی طرح ہونا چاہتا ہے۔

قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑ جاتی ہے۔ قوم کی مثال ایک مشین کی طرح ہے جیسے ایک مشین اْس وقت تک درست کام کرتی ہے جب تک اس کے پرزے صحیح کام کر رہے ہوں۔ اسی طرح قوم اس وقت درست ہوتی ہے جب اس کے افراد اپنی جگہ پر درست کام کر رہے ہو۔ ایک مشین بنانا یہ ہے کہ اس کے پرزے بنائے جائیں۔ اسی طرح ایک قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔

پاکستان کے ایک صنعت کار مغربی جرمنی گئے۔ وہاں ان کو ایک کارخانہ میں جانے کا موقع ملا۔ وہ اِدھر اْدھر گھوم کر کارخانہ کی کارکردگی دیکھتے رہے۔ اس دوران وہ ایک کاریگر کے پاس کھڑے ہوگئے اور اس سے کچھ سوالات کرنے لگے۔ بار بار مخاطب کرنے کے باوجود اْس کاریگر نے کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ بدستور اپنے کام میں لگا رہا۔ کچھ دیر بعد کھانے کے وقفہ کی گھنٹی بجی۔ اب کاریگر مشینوں سے اْٹھ کر کھانے کی طرف جانے لگے۔ اس وقت مذکورہ کاریگر پاکستانی صنعتکار کے پاس آیا۔ اس صنعتکار سے ہاتھ ملایا اور اس کے بعد بڑی حیرانی کے ساتھ اس سے پوچھا کیا آپ اپنے ملک کے کاریگروں سے کام کرتے وقت بھی باتیں کرتے ہیں۔ اگر اس وقت میں آپ کی باتوں کا جواب دیتا تو کام کے چند منٹ ضائع ہو جاتے اور کمپنی کا نقصان ہو جاتا۔ اس کا مطلب پوری قوم کا نقصان تھا۔ ہم یہاں پر ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے آتے ہیں، ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں آتے۔ یہی وہ کردار ہے جو مغربی قوموں کی ترقی کا راز ہے۔ انیس سو پینتالیس میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کو بالکل تباہ کر دیا تھا، مگر صرف پچیس سال بعد جرمنی دوبارہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور بن کر ابھرا۔

بدعنوانی سے مراد ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنا ہے جو کسی فرد یا سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کو نقصان پہنچانے کا سبب ہو۔ بدعنوانی عام زبان میں رشوت کو کہا جاتا ہے جو کہ صاحبِ اختیار انسان اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر اپنا ہی ذمہ فرض کام کرنے کے پیسے لے، یا کسی غیر قانونی کام کو قانونی شکل دینے کے لیے رقم کی مانگ کرے۔ یہ بدعنوانی کی وہ قسم ہے جو کسی بھی معاشرے میں عام ہے اور لوگ اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لئے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

اس کی وجوہات زیادہ تر معاشی ہیں جن میں غربت، بیماری، آمدنی کا گھر کے خرچ کم ہونا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ایک بدعنوانی کی قسم وہ ہے جو کہ معاشی نہیں بلکہ نفسیاتی ہے۔ اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلا ایک شخص کے پاس اچھی خاصی ملازمت ہے، اچھی تنخواہ ہے مگر اس کی بدعنوانی یہ ہے کہ وہ اپنے ذمہ کام کو درست طریقے سے نہیں کرتا۔ اپنے فرائض منصبی صحیح طور پر ادا نہیں کرتا۔ کسی بھی دفتر میں اگر آٹھ گھنٹے کی تنخواہ لیتا ہے مگر دفتر کو وقت وہ صرف چھ گھنٹے دیتا ہے تو یہ بھی ایک بدعنوانی ہے۔

جس ادارے سے منسلک ہے اس کے بہتری اور ترقی کے لئے کام نہیں کرتا بلکہ کسی دوسرے ادارہ سے اس کے مفادات منسلک ہیں۔ نفسیاتی بدعنوانی کی ایک قسم یہ ہے کہ لوگوں سے زیادتی کرنے، ان کا حق کھانے، اپنے فرائض کو درست ادا نہ کرنے، اپنے بہن بھائیوں کا جائیداد میں شرعی حصہ ادا نہ کرنے، تعمیراتی کام میں غیر معیاری سامان استعمال کرنے، اپنے طالب علموں کو سرکاری ادارے میں صحیح وقت اور تعلیم نہ دینے اور اپنے ذاتی کاموں میں مصروف رہنے، سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا ٹھیک علاج نہ کرنے انہیں تڑپتا چھوڑ دینے جبکہ پرائیوٹ اداروں میں دلجمعی کے ساتھ کام کرنے، سرکاری عہدوں پر بیٹھتے ہوئے اپنے خاندان کے لوگوں کی غیر قانونی امداد اور دوسرے ممالک میں اِن کی تعلیم اور شہریت مستقل کرنے سے اپنے ملکِ عزیز کو کروڑوں اور اربوں کا نقصان پہنچانے کے بعد حج اور عمرہ ادا کرنا بھی ایک نفسیاتی بدعنوانی ہے۔ حرام سے کی گئی کمائی سے حج، عمرہ، صدقہ و خیرات کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس قوم نے دین کو ابھی سمجھا ہی نہیں۔ کعبہ کے چکر لگانے سے انسانوں کو دیے ہوئے چکر کبھی ختم نہیں ہوتے۔

بدعنوانی ایک نفسیاتی خرابی ہے اور فنی مہارت میں کمی ایک ٹیکنیکل خرابی۔ نفسیاتی خرابی کو ٹیکنیکل اصلاح کے ذریعہ دور نہیں کیا جاسکتا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں واقعتاً ایک بہتر سماج بنے تو افراد قوم کی نفسیاتی اصلاح کرنی ہوگی، صرف ٹیکنیکل کورس میں اضافہ سے یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments