26، فروری، 2020ء ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کی برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر


کردار انسان کا وہ حُسن ہے جسے زوال نہیں۔ بے لوثی سے علم و ادب کے ذریعے نوزائیدہ پاکستانی معاشرے کو مضبوط بنانے کی جدوجہدکرنے والے اُستاذالاساتذہ، نقاد، افسانہ نگار، مترجم، ناول نگار، دانشور، انگریزی، اُردو، فارسی، عربی، جرمن، فرانسیسی، لاطینی اور یونانی یعنی آٹھ زبانیں جاننے والے پروفیسر، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اپنے روشن کردار کی بدولت آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

آپ نے 22، نومبر، 1912 ء کو 21، قیصر باغ بلہرہ ہاؤس، لکھنو میں محمد حسن خاں فاروقی کے گھر جنم لیا۔ ان کے پردادا نواب مجید الدین احمد خاں عرف مجو خاں وائی مراد آباد تھے جنہوں نے 1857 ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر انگریز اتالیق مسٹر جیکب سے حاصل کی، 1929 ء میں کوئنس ہائی اسکول سے میٹرک اور 1931 ء میں کرسچین کالج سے انٹر سائنس کیا، 1933 ء میں لکھنو یونی ورسٹی سے بی اے، 1936 میں ایم اے (انگریزی) ، 1940 ء میں ایم اے فلسفہ اور 1946 ء میں انگریزی میں ”جان ملٹن“ پر پی ایچ ڈی کی سندحاصل کی۔

آپ اُردو کے ممتاز افسانہ نگار علی عباس حسینی اور ڈاکٹر سدھانت سے متاثر تھے اور انہیں اپنا اُستاد مانتے تھے۔

انہوں نے 1939 ء میں کچھ عرصے انگریزی اخبار ”پائنیر“ لکھنو میں نائب مدیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیے، 1950 ء تک لکھنویونی ورسٹی میں انگریزی کے لیکچرار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، اگست 1955 ء میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی جس کے بعد 1955 ء تا 1958 ء جامعہ کراچی میں معلم اور صدر شعبہ انگریزی رہے، 1958 ء تا 1968 ء سندھ یونی ورسٹی میں ریڈر، اُستاد اور صدر شعبہ انگریزی کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض نبھائے، 1968 ء تا 1970 ء اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج سکھر میں بحیثیت مشیر، 1973 ء جامعہ بلوچستان میں صدر شعبہ انگریزی اور اس کے بعد ڈین فیکلٹی آف آرٹس مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے۔

1939 ء میں ان کا پہلا اُردو مضمون نگار لکھنو میں شائع ہوا، 1948 ء میں آپ کا معروف تہذیبی ناول شامِ اَودھ منظرِ عام پر آیا جس نے ادبی حلقوں میں دھوم مچا دی۔ اس کے علاوہ مرثیہ نگاری اور میر انیس نگار میں قسط وار شائع ہوئے۔ 1950 ء میں رہ و رسم آشنائی کے عنوان سے افسانہ نگاری کا سلسلہ ”ساقی“ کراچی سے شروع کیا، 1951 ء تا 1960 ء پانچ جلدوں میں ناول ”ماشے اللہ سے ایم۔ اے“ لکھاجس کی تین جلدیں ”آبلہ دل کا“، سنگِ گراں ”اور“ رخصتِ زنداں ”شائع ہوئیں جب کے دو جلدیں“ یہ وہ بہاریں تو نہیں ”اور“ تازہ بستیاں آباد ”غیر مطبوعہ تھیں۔

انہوں نے 1962 ء میں رمزیہ ا نداز میں اپنی سرگزشتِ حیات ”سنگم“ کے نام سے تحریر کی جو 1966 ء میں ”دل کے آئینے میں“ کے عنوان سے ”سیپ“ میں قسط وار شائع ہوئی، 1968 ء میں سترہ مضامین پر مشتمل مجموعہ مضامین ”تخلیقی تنقید“ کے نام سے لکھا، 1969 ء میں افسانوں کا مجموعہ ”افسانہ کردیا“ کے عنوان سے قارئین کی نذر کیا۔ آپ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ ”تاریخِ ادب انگریزی“ اُردو میں لکھ کر اُردو ادب میں ایک ان مول سرمائے کا اضافہ کیا جو ان کے بعد اورکوئی نہیں کرسکاہے۔

انہوں نے اپنے قلمی سفر میں ناول کیا ہے؟ ، کفِ دست میدان، صبح بنارس، زلفیں زنجیر میں، فانی اور اس کی شاعری جیسے بہترین ادبی شاہکار بھی تحریر کیے۔ آپ نے انگریزی میں بھی تصنیف و ترجمہ کا کام کیا ”ففٹین پوئٹس“ لکھی، مولانا محمد باقر شمس لکھنوی کی کتاب ”اسلام پر کیا گزری کا ترجمہ“ True Face Of Islam ”کے نام سے کرنے کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ ادیب موپاساں کے شہرہ آفاق ناول“ بل ایمی ”کا بھی ترجمہ کیا۔

انہوں نے انگریزی اخبار ڈان میں بھی مضامین لکھے اور اُردو میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں افسانے، مضامین اور انشائیے لکھے جو اُس دور کے موقر جرائد ”نگار، نقوش، سیپ اور طلوعِ افکار“ میں شائع ہوتے رہے جو ان کی دیگر تخلیقی کاوشوں کی طرح اساتذہ، طلبہ سمیت عام قارئین تک میں بے حد مقبول ہوئے اور آج بھی ادب سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد ان کے شاہکار تخلیقی اثاثوں سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کی علم و ادب کے ذریعے قوم کو باشعور بنانے کی سنہری کاوشوں پرڈاکٹر جمیل جالبی نے ”تاریخِ ادب انگریزی“ کے ”حرفِ آغاز میں تبصرہ کر کے گویادریا کو کوزے میں بند کردیا ہے جس کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں :

( 1 ) پروفیسر ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نہ صرف اُردو ادب کے بڑے نقاد، بڑے افسانہ نگاراور بڑے ناول نگار تھے بل کہ برعظیم پاک و ہند میں انگریزی ادب کے ایک ایسے اُستاد بھی تھے جو اپنے وسعتِ علم، کثرتِ مطالعہ اور دل نشین اندازِ درس و تدریس کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ اتنے پڑھے لکھے لوگ ہمارے دور میں اتنے کم ہیں کہ انہیں اُنگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔

( 2 ) وہ پاکستان میں دانشوری کی روایت کے صحیح معنی میں منفرد نمائندہ تھے۔

( 3 ) گزشتہ دو سو سال سے انگریزی زبان و ادب برعظیم پاک و ہند کی درس گاہوں میں پڑھائے جا رہے ہیں لیکن اب تک اُردو زبان میں انگریزی ادب کی کوئی ایسی تاریخ نہیں لکھی گئی جسے مستند کہا جاسکے۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر احسن فاروقی کی زیرِ نظر کتاب ”تاریخ ِ ادب انگریزی“ پہلی تاریخ ہے جسے انگریزی ادب کے ایک راز دان نے اُردو زبان میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں جو مواد اور زاویہ نگاہ پیش کیا گیا ہے وہ فاروقی صاحب کے پچاس سال کے گہرے مطالعے اور درس و تدریس کے وسیع تجربے کا نچوڑ ہے۔

( 4 ) دنیا کے سب متمدن ممالک میں ان کی اپنی زبانیں درس و تدریس کا ذریعہ ہیں۔ انگریز اگر فرانسیسی، جرمن یا روسی زبان سیکھتا ہے تو اپنی زبان انگریزی ہی کے ذریعے سیکھتا ہے۔ اگر اُردو زبان سیکھتا ہے تو وہ بھی انگریزی زبان ہی کے ذریعے سیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کی ضرورت کے باعث دنیا بھر کے علوم و ادبیات ان کی اپنی زبان میں وجود میں آتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال یہ ہے کہ ہم ہر علم انگریزی زبان کے ذریعے سیکھتے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں اور اختراعی قوتیں کمزور ہوکر کم و بیش ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر احسن فاروقی مرحوم کے اس ”قومی احساس“ کی وجہ سے انگریزی ادب کی تاریخ اُردو زبان میں لکھی جاسکی۔ یہ ”تاریخ“ یقیناً ایک ایسا کارنامہ ہے جس سے طلبہ و اساتذہ سے لے کر عام قاری تک سب مستفید ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی گنگا جمنی تہذیب کے ترجمان تھے۔ اُن کے ناولوں، افسانوں، انشائیوں اور مضامین میں اُس کا عکس جگہ جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے 26، فروری، 1978 ء کو وفات پائی۔ ان کے پس ماندگان میں رضا احسن فاروقی، جعفر احسن فاروقی، صفیہ احسن فاروقی اور عطیہ احسن فاروقی شامل تھے۔ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی علم و ادب کا بلند مینار تھے ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی تاریخ ادھوری رہے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments