شک کا کیڑا


شعور و آگہی کی دنیا بالکل ہی الگ قسم کی ہوتی ہے یہ ایک ایسا روحانی سفر ہوتا ہے جو انسان کے اندر سے شروع ہوتا ہے اور یہ بہت زیادہ ریاضت کا متقاضی ہوتا ہے۔ پہلے وقتوں میں نروانہ حاصل کرنے کے لیے شعور و آگہی کے طالب جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کیا کرتے تھے تاکہ اپنی ذات کی تہہ میں اتر کر زندگی کا صحیح گیان حاصل کر سکیں۔ یہ بہت ہی صبر آزما ئی کا کام ہوتا ہے کیونکہ اس روحانی سفر کے طالب کا سامنا انتہائی سکوت اور تنہائی میں ایک ایسی ذات سے ہوتا ہے جوکہ خود اس کی اپنی ہی ذات ہوتی ہے۔

جب وہ طالب اپنی ذات سے بخوبی آگاہ ہوجاتا ہے تو پھر اسی ذات میں سے علم و ہنر اور جستجو کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ ایک ایسی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جسے ”شک کی بیماری“ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری سے وہ ساری عمر چھٹکارہ اور خلاصی نہیں پاتے بلکہ اسی دائمی مرض کی بدولت ان کا شعوری سفر جاری و ساری رہتا ہے۔ موجودہ دور میں اس بیماری کو تشکیک پسندی کہا جاتا ہے لیکن اس قسم کے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔

یہ لوگ ”لَرن، رِی لَرن اور ان لَرن“ کے اصول پر کاربند رہ کر نئی راہوں، نئی منزلوں اور غیر روایتی راستوں پر چل کر نئے نئے افکار سے کائنات کو منور کرتے رہتے ہیں۔ ان کے شعوری سفر میں پرفیکشن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ایک تشنگی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ یہ لوگ اپنے عہد سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ جوہرِ نایاب کبھی گلیلیو کی صورت میں تو کبھی سقراط اور افلاطون کی صورت میں، کبھی منصور حلاج، رابعہ بصری اور معتزلہ فکر کی صورت میں، کبھی نطشے، سارتر اور کارل مارکس کی طرز پر اور کبھی صوفیائی فکر کی صورت میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی طرز پر، الغرض ہر رنگ اور روپ میں یہ لوگ ہر دور میں سامنے آکر روایتی طرز فکر پر کاری ضرب لگاتے ہیں اور نئے نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔

نطشے نے کیا خوبصورت بات کی تھی ”بعض دفعہ لوگ سچ سننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنے قائم شدہ تصورات کا بھرم توڑنا نہیں چاہتے“ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اپنے اس گھٹن زدہ سماج میں پرندوں کے اس غول کی طرح ہو چکے ہیں کہ جنہیں اپنے پنجروں سے پیار ہوجاتا ہے اور کھلی فضاؤں میں پرواز کرنے سے ڈر لگنے لگتا ہے اور ہماری نفسیات ان بچوں کی مانند تشکیل پا چکی ہے کہ جنہیں اندھیروں سے تو ڈرلگتاہی ہے مگر اجالوں سے بھی خائف ہوجاتے ہیں۔

ہم آئیڈیالوجیکلی ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں کہ جہاں پر دماغ کا استعمال ممنوع ہے اور دماغ کا استعمال کرنے والوں کو الحاد یا کفر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مگر سوچنے والے کب باز آتے ہیں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سوچ کے زاویے میں پروکر مختلف انداز میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ چند روز پہلے مشہور پنجابی شاعر صابر سائیں کا کلام نظر سے گزرا یہ چند جملے بصیرت کا ایک جہان ہیں۔ پیش خدمت ہے

ربا تیرے حکم بنا جے پتا وی نیئں ہلدا

کی سمجھا فیر ہر ماڑے تے تگڑے پچھے توُں ایں؟

جہڑے سانوں لگدے پے نیئں رگڑے پچھے توُں ایں؟

مسجد، مندر تے گرجے والے جھگڑے پچھے توُں ایں؟

اینے خوں خرابے دے وچ تینوں کی اے ملدا؟

ربا تیرے حکم بنا جے پتا وی نیئں ہلدا

یہ سوالات کی وہ گردان ہے جو ہمارے لگے بندھے اور تہہ شدہ ان قواعد و ضوابط پر گہری چوٹ لگاتے ہیں جو ہمیں معاشرے کے مذہبی ستون ”فادر، پنڈت اور ُملاں“ ہمارے دماغوں میں ایمانیات کی گرہ لگا کر انڈیلتے رہتے ہیں اور ہمیں معاشرتی نا انصافیوں اور رویوں پر بجائے غور و فکر کرنے کے الٹا صابر و شاکر رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں مگر اب ہم ایمانیات کے دور سے نکل کر سائنٹیفک حقائق کے دور میں داخل ہوچکے ہیں اور اب یہ ممکن نہیں رہا کہ نئے پیدا ہونے والے سوالات اور شکوک و شبہات کو ہم ایمان کا غلاف چڑھا کر ایک طرف کر دیں۔ اب حقائق کا مقابلہ حقائق سے ہوگا ناکہ ایمانی قصے کہانیوں سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments