راولپنڈی کینٹ کی پُلی، مردانہ ٹرک اور خاتون ڈرائیور


آج ہم نے زور زور سے گاڑی کا ہارن بجایا اور کئی منٹ تک بجاتے ہی چلے گئے۔ ایک ایسی جگہ پہ جہاں دور دور تک ہارن کی آواز سنائی نہیں دیتی بلکہ ہارن بجانا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔ یہ کارنامہ کرنے کے بعد ہمیں کچھ کمینی سی خوشی محسوس ہوئی کہ ہم عورتوں کو، مردوں کی اکثریت کم عقل ڈرائیور پکار کے ٹھٹے لگاتی نظر آتی ہے۔

کوئی گاڑی سڑک پہ غلط موڑ کاٹ لے، آہستہ چل رہی ہو، اوور ٹیک کی جسارت نہ کرے، فوراً اندازہ لگایا جاتا ہے ‘ضرور زنانی چلا رہی ہوئے گی’

ہم نے میڈیکل کالج سے نکلنے کے بعد ڈرائیونگ سیکھی۔ صاحب سے سیکھنے کا خطرہ مول نہیں لیا، علم تھا کہ چھوٹی سی غلطی پہ بھی ایسی ڈانٹ پٹے گی کہ دل اچھل کے حلق میں آ جائے گا۔ سوچا کہ کسی ڈرائیور سے سیکھنی چاہیے۔ سو یہی ہوا، ہم جب بھی کوئی غلطی کرتے، ایک گرج دار آواز اور قہر آلود نظروں کی بجائے ایک مؤدب سی آواز آتی،

 ” باجی! ذرا گئیر تو تبدیل کر لیں، باجی! زور سے بریک نہ لگائیں، باجی! کلچ سے پاؤں اٹھا لیں”

نوے کی دہائی کے شروع سے گاڑی چلانی شروع کی اور عورت ذات پہ لگے الزامات کو دھونے کی کوشش کرتے کرتے دبنگ ڈرائیور بن گئے۔ سمجھ جائیے کہ آج ہارن بجانا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

مشرق وسطیٰ میں ڈرائیونگ کی رفتار تیز ضرور ہے لیکن نپی تلی بھی ہے۔ ہر گاڑی اپنی لین میں چلتی ہے، لین تبدیل کرنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی اور گاڑی زیادہ قریب تو نہیں اور اشارہ لازمی دیا جاتا ہے۔ ہارن بالکل نہیں بجایا جاتا اور اگر کوئی ہارن بجائے تو یہ دوسرے ڈرائیور کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ہمارے لئے یہ بات باعث افتخار ہے کہ آج تک ہمارا چالان نہیں ہوا۔

ہم اپنے بیٹے کو سکول سے لینے جا رہے تھے اور اپنی لین میں سکون سے کھڑے اشارہ کھلنے کے منتظر تھے۔ جونہی اشارہ کھلا، ہماری ساتھ والی لین سے ایک گاڑی انتہائی بھونڈے پن سے ہماری لین میں اس طرح سے آ گھسی کہ اگر ہم زور سے بریک نہیں لگاتے تو حادثہ ہونا لازم تھا۔ گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی لیکن ہمارا پارہ گرمی پکڑ چکا تھا۔ ہم نے ہارن بجایا اور بجاتے ہی چلے گئے۔ یہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو تنبیہہ تھی۔اور اس واقعے سے ہمیں ایک بھولی بسری بات یاد آ گئی۔

اکیسویں صدی کا اوائل تھا اور ہم راولپنڈی کینٹ میں رہا کرتے تھے۔ راولپنڈی کینٹ کچھ ایسا علاقہ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ (ڈاکٹر صاحبہ، بیرون ملک قیام سے ناجائز فائدہ مت اٹھائیں۔ راولپنڈی کے بارے میں تنقیدی کمنٹ قومی مفاد کے منافی ہے۔ مدیر) ابھی ایک فوجی یونٹ نظر آئے گی جس کے گیٹ پہ باوردی سپاہی بندوق تھامے کھڑا ہو گا اور ساتھ میں ہی عوام الناس کے گھر اور ٹیڑھی میڑھی گلیاں ہوں گی۔ کہیں زمین اونچی نیچی ٹیلہ نما ہوگی تو کہیں نشیب میں پانی بہہ رہا ہوگا۔

ہمارے اماں ابا کے گھر کو جانے والی سڑک کے شروع میں ایک بازار تھا۔ بازار کے اختتام پہ ایک چھوٹی پلی تھی جو شاید کسی برساتی نالے کے لئے بھلے وقتوں میں بنائی گئی تھی۔ پلی پار کرنے کے بعد سڑک دو رویہ ہو جاتی تھی۔

بازار تک تو سب صحیح تھا لیکن پلی پار کرنا کسی صراط مستقیم سے کم نہ تھا۔ پلی کی چوڑائی صرف ایک گاڑی جتنی تھی سو دونوں طرف کی ٹریفک باری باری اس پہ سے گزرتی تھی۔ اب ٹریفک کانسٹیبل تو تھا نہیں کہ ایک طرف والوں کو روکتا اور دوسری طرف والوں کو گزرنے دیتا۔ سو سب نے خود ہی یہ اصول اخذ کر لیا کہ جس طرف سے بھی کوئی گاڑی پلی پہ پہلے چڑھ جائے گی، دوسری طرف والی گاڑی رک جائے گی اور انتظار کرے گی کہ پہلے سے پلی پہ موجود گاڑی پلی پار کر لے۔ ایسا سالہا سال سے ہوتا آ رہا تھا۔

ہم اکثر شام کو ہسپتال سے آنے کے بعد بچوں کو گاڑی میں بٹھاتے اور اپنی لال آلٹو چلاتے ہوئے اماں سے ملنے روانہ ہو جاتے۔ آتش جوان تھا (حیدر علی آتش 1848ء میں وفات پا گئے۔ انہیں اگر اپنا مصرع آپ کے پلے پڑنے کا اندیشہ ہوتا تو آگ تخلص فرماتے۔ آتش جوان تھا کی بجائے آپ کی آتش بجانی کی رعایت سے “آگ بھڑک رہی تھی” لکھتے- مدیر) سو گاڑی میں میوزک بھی اونچے سروں میں بجتا، گاڑی بھی خوب تیز چلتی اور پکے ڈرائیوروں کی طرح اونچا اونچا بولتے، تیوریاں چڑھاتے جب تک اماں کے گھر پہچتے، مزاج برہم ہو چکا ہوتا جو اماں کا بوسہ پا کے فوراً ہی خوشگوار ہو جاتا۔

سرما کی ایک ڈھلتی شام تھی، جب ہم پلی تک پہنچے۔ پلی کے دوسری طرف ایک ٹرک تھا جو کچھ فاصلے پہ تھا۔ ہم نے بلا خوف و خطر پلی پہ گاڑی چڑھا دی کہ ہم پلی کے آغاز تک پہلے پہنچ چکے تھے۔ دوسری طرف آنے والے ٹرک کا ڈرائیور شاید اپنے ٹرک کے خمار میں تھا یا شاید ایک عورت کو گاڑی میں دیکھ کے اس کی کوئی رگ پھڑک اٹھی تھی۔ ہم جو مزے سے پلی کے وسط تک پہنچ چکے تھے دیکھا کہ ٹرک بھی پلی پہ چڑھ کے ہماری طرف چلا آ رہا تھا۔

” ارے یہ کیا؟ یہ رکا کیوں نہیں؟ دیکھ تو لیا تھا اس نے کہ ہم پہلے سے پلی پہ ہیں ” ہم بڑبڑائے۔

اب صورت حال کچھ یوں بنی کہ ہم پلی کے وسط سے تھوڑا آگے اور وہ وسط سے تھوڑا پیچھے، پلی پہ ایک ٹرک میں بیٹھے دو مرد اور چھوٹی گاڑی میں بیٹھی ایک عورت ایک دوسرے کو خشمگیں نظروں سے گھور رہے تھے۔ ہم نے ٹرک کے کنڈیکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا

” بی بی ، اپنی گاڑی پیچھے کرو”

ہمارے تو مانو تلوؤں میں لگی اور سر میں بجھی!

” کیوں ؟ میں پلی پہ پہلے چڑھی ہوں، تم مجھے دیکھ کے سائیڈ پہ رکے کیوں نہیں “

” او بی بی ، بس ہم آ گیا، اب تم گاڑی پیچھے کرو”

” میں کیوں کروں، تم ٹرک پیچھے کرو”

” بی بی، ٹرک پیچھے کرنا مشکل ہے، تمہاری چھوٹی گاڑی ہے”

” دیکھو، بڑی چھوٹی میں نہیں جانتی، میں پل پہ کافی آگے ہوں، غلطی تمہاری ہے سو تم ٹرک پیچھے کرو”

” او بی بی، یہ نہیں ہو سکتا”

” پھر ہم سے بھی یہ نہیں ہو سکتا”

ٹرک کا ڈرائیور بھی نیچے آ چکا تھا، تو تو میں میں سن کے خلق خدا بھی اکھٹی ہو چکی تھی۔ ہمیں عورت سمجھ کے مفت مشوروں سے نوازا جا رہا تھا کہ ہمیں بات مان لینی چاہئے۔ ہمارا موقف تھا کہ ہم حق پہ ہیں، ٹرک ڈرائیور نے ہمارا حق غصب کرنے کی کوشش کی ہے جو ہم کرنے نہیں دیں گے۔

جب بات کسی طرح نہ بنی، ہم نے گاڑی بند کی، اور یہ کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے کہ میں تو پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ اب تم لوگ خود ہی فیصلہ کر لو۔

پلی کے دونوں طرف گاڑیوں کی لمبی قطار تھی اور بھانت بھانت کی بولیاں تھیں۔ ہمارا سکون اور اپنے فیصلے کو نہ بدلنے کا ارادہ دیکھ کے لوگوں نے ڈرائیور کو سمجھانا شروع کیا جس کا بس نہیں چلتا تھا کہ ہمیں کچا چبا ڈالے۔

کچھ لوگوں نے ٹرک کی پیچھے والی گاڑیوں کو ریورس کرانا شروع کیا۔ ٹرک ڈرائیور زیر لب گالیاں دیتا ٹرک میں بیٹھا اور ٹرک کو پیچھے لے جانا شروع کیا۔ ہم نے گاڑی سٹارٹ کی اور آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے پلی پار کی۔ ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ تھی۔ ہم نے اپنا حق چھین کے واپس لیا تھا۔

خواتین ڈرائیوروں کو کم عقل اور اعتماد سے عاری سمجھنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس معاشرے میں عورت کے پر ہر دم جلتے ہوں، جہاں امتیازی رویوں کے کوڑے اوائل عمری سے جسم و جان کو زخمی کرتے ہوئے عورت کو ملکیت کے خانے میں رکھتے ہوں، وہاں ہر وہ عورت جو اس جنگل میں باہر نکل کے ہمت آزمانے کی جرات کرے، ستائش کی مستحق ہوا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments