اردو ہماری پہچان


ہرقوم کی اپنی تہذیب، ثقافت، اور قومی زبان ہوتی ہے۔ قومی زبان اس کی ترجمان ہوتی ہے اور قومیں زبان سے ہی پہچانی جاتیں ہیں۔ اسی لیے بانی پاکستان قائد اعظم  نے بھی اردو کو قومی زبان تسلیم کیا تھا بلکہ اس کے نفاذ پر زور بھی دیا تھا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 25 فروری 1948 کو پاکستان کی سرکاری زبان اردو کو قرار دیا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے بحیثیت گورنر جنرل اس پر دستخط کیے تھے۔

اگر اردو کی تاریخ بیان کی جائے تو اردو کا سب سے پہلا اخبار ”جام جہان نما“ 13 مارچ 1822 میں کلکتہ سے شائع ہوا تھا۔ اردو کی پہلی یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ حیدر آباد 1881 میں قائم ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اردو کا پہلا شاعر قلی قطب شاہ ہے جو ایک ریاست کا سربراہ بھی تھا۔ یہ ریاست بیجا پور، گولکنڈا اور احمد نگر پر مشتمل تھی جو 1815 میں قائم ہوئی تھی۔ جب کہ ولی دکنی کو ایک عرصہ تک اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 70 سال گزر جانے کے باوجود اردو ہماری قومی زبان کی حیثیت اختیار نہیں کر پائی۔ ہماری عدالتوں، دفاتر اور سرکاری اداروں میں انگریزی کو ہی اولیت حاصل ہے جبکہ قائداعظم  نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اردو ہی اس قوم کی شناخت ہے۔

محمد علی جناحؒ نے کہا تھا، ”میں واضح الفاظ میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی“۔ ستمبر 2015 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ نے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ سنایا کہ تین ماہ کے اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ سرکاری محکمے، عدالتی مقدمات کے اردو میں جوابات لکھیں، سی، ایس، ایس، این، ٹی، ایس اور مقابلے کے دیگر امتحانات اردو میں ہوں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی تین سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا لیکن سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کو اپنی ترقی کا ضامن سمجھیں۔

انگریزی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں، جس طرح کسی بھی ملک میں اس کی قومی زبان کی اہمیت ہے اور وہ قومی زبان اس ملک میں رابطے کاکام کرتی ہے اسی طرح انگریزی کو عالمی سطح پر رابطہ کی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اردو زبان کے دفتری و قومی زبان کے نفاذ کا مطلب ہر گز ہرگز یہ نہیں کہ انگریزی کو اپنے ملک سے دیس نکالا دے دیا جائے۔ اس کا سیکھنا، سمجھنا، پڑھنا، پڑھانا اور بولنا اپنی جگہ قائم و دائم رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو باہر کی دنیا میں ہمارے مستقبل کے معمار، ہمارے نوجوان، ہمارے ہنر مند غیر ممالک میں کس طرح اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔

بے شمار ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پر ان کی زبان کا بول بالا ہے، وہاں کی زبان ہر اعتبار سے وہاں حکمرانی کرتی ہے۔ چین، جاپان، جرمنی میں انگریزی میں خط و کتابت نہیں ہوتی۔ وہاں ان کی اپنی زبان ہی کی حکمرانی ہے۔ سعودی عرب میں زندگی کے ہر ہر شعبہ میں عربی کا استعمال ہے۔ انگریزی اپنی جگہ ہے۔ سعودی شہری عربی پڑھتے، بولتے اور عربی بول کر ہی ڈاکٹر بھی بنتے ہیں، انجینئر بھی اور دیگر پیشوں میں بھی اعلیٰ مہارت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ہم اپنے ملک کا نظام اردو میں تبدیل کیوں نہیں کرسکتے؟ کیا اردو کے نفاذ سے ہمارے بچے ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ اور دیگر پیشوں میں اعلیٰ مہارت حاصل نہیں کر پائیں گے؟

اردو کا نفاذ ہمارے ملک اور اس میں رہنے والی عوام کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ نہ صرف ہماری ثقافت کا حصہ ہے بلکہ ہمارے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی خواہش بھی ہے۔ اردو ہی ہماری شناخت ہے اور ہر زندہ قوم کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی قومی اثاثوں کو نہ صرف سنبھال کر رکھتی ہیں بلکہ اس کا نفاذ بھی یقینی بناتی ہیں۔ آئیے ہم بھی اردو کو اپنے ماتھے کا ٹیکہ بنا کر اس کی ترقی کے لیے کام کریں اور اس کو اپنی شناخت بنا کر اپنے قائد کی خواہش کا احترام کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments