کورونا ڈائری۔ انوکھی سواری


آج میں نے برف کے پہیے بنانے چاہے اور آسمانی بجلی سے تیز آندھی کی دعا مانگی۔ میرا خیال تھا بلکہ یوں کہتا ہوں کہ مجھے پورا یقین تھا کوئی نامعلوم غیر نامیاتی اور بے حد طاقتور میکانکی قوت ان پہیوں کو ایک ایسی برق رفتار سواری میں بدل دے گی جہاں آنکھ کھلنے پر محفوظ مقام کی نیم گرم ہوائیں میرے بالوں سے الجھ پڑیں گی اور کنگھی تلاش کرنے کے لئے مجھے اپنے سفری بیگ کو کھولنا پڑے گا جو پہیے بنانے اور دعا مانگنے کی جلدی میں اسی کمرے میں رہ گیا ہو گا جسے وبا بنانے والی کمپنیوں نے اپنے اشتہاروں تک میں محفوظ ترین مقامات کی مثالوں میں پیش کیا تھا۔

ایسی انوکھی سواری بنانے کا یہ میرا پہلا تجربہ نہیں تھا اس سے پہلے بھی میں پانی کی ناؤ اور دھوپ کا رتھ بنانے جیسے کامیاب تجربات کر چکا تھا جو میری زندہ رہنے کی اس مہم میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں لا تعداد دن رات کے مشاہدے اور تحقیق سے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ دنیا میں تمام شعبہ ہائے جات کے معماروں اور تخلیقیت پسندوں کا روزانہ کی بنیاد پر موسم کی تازہ ترین صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ ہونا بے حد ضروری ہے یعنی آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ موسم کی انتہائی پر احتیاط جانکاری کے بنا انوکھی سواری بنا لینا بچے کی ضد یا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر اس کا نت نئے تجربات سے ملنے والی روحانی خوشی اور منطق کی عمیق پیچیدگیوں کو سلجھانے کی لگن سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

کئی روز ہوئے جب اپنا کمرہ بند کرتے ہوئے میں خود کو باہر نکالنا بھول گیا تھا۔ اب رفتہ رفتہ ذہن پہ زور دینے اور یاداشت کے ابتدائی ترین رجسٹر بھی تسلی سے کھنگال چکنے کے بعد خود کو اس خوفناک حقیقت سے خوں ریز جنگ کے لئے تیار کر رہا ہوں کہ میں اپنے خود ساختہ قید خانے سے رہائی کے سبھی راستے مکمل طور پر بھول چکا ہوں۔ یہی وجہ ہے اور جسے اس قسم کے نا ممکن حالات کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مجھے اپنی زندہ رہنے کی مہم کے باقی ماندہ دن رات انوکھی سواری کی اس وقت کش تعمیر کے لیے وقف کر دینے پڑے ہیں جو مستقبل قریب یا بعید میں میری رہائی کے تمام تر ممکنہ و غیر ممکنہ موثر ترین منصوبوں میں سب سے کارآمد منصوبہ ثابت ہو گا۔

اگر میں آنکھوں کے زور پر کھڑکیوں کے پردے اٹھا سکتا تو یہ معلوم کر لینا کہ مغرب کا سورج طلوع ہونے کے لیے اس ناقابل فہم اور مہلک وبا سے متاثرہ لوگوں کی نبضوں کی طرح ڈوبتا جا رہا ہے کوئی مشکل بات نہیں تھی مگر تاریخوں پر یاد دہانی کے لیے لگائے جانے والے سرخ دائروں یا کسی بھی قسم کے نشانات سے پاک، بالکل نیا اور صاف شفاف کیلنڈر ہونے کے باوجود بھی صحیح دن اور درست تاریخ کا اندازہ لگا لینا قطعی طور پر میرے بس سے باہر تھا۔

لیکن خوش قسمتی سے ابھی تک انسانوں کا ایک ایسا گروہ موجود ہے جو اس بات سے اتنا پر جوش ہو سکتا ہے کہ معمولی سے اصرار پر مجھے خدا کا اوتار یا کم سے کم بھی اپنے قبیلے کا سب سے بڑا روحانی پیشوا بنانے پر بخوشی تیار ہو جائے گا۔ ان کا ماننا ہے کہ قدرتی اور مصنوعی آفات کے اس پر آشوب دور میں نجات کا واحد رستہ وقت کے پہیے سے باہر نکل جانا ہے یہی آزادی کی خالص ترین شکل ہے اسی میں کل انسانیت کا اجتماعی فائدہ اور فلاح ہے۔

اگر مجھے ایک قد آور آئینے کے سامنے کھڑا کر دیا جائے تو یہ اعلان کرتے ہوئے میری خوشی دیدنی ہو گی کہ میں نے تغیر کے خداؤں سے معرکے کی جنگ لڑی اور اپنے قبیلے کے عظیم ترین نسب العین کی انتہاؤں کو پہنچا۔ اب میں وقت کی قید سے مکمل طور پر آزاد صرف اپنے کمرے میں قید ہوں جہاں میں پوری یکسوئی اور تندہی سے اپنی انوکھی سواری کی تعمیر میں جٹا ہوا ہوں۔

غیر حتمی اعداد و شمار کے مطابق اب تک دو ارب کی آبادی میں قریب ایک لاکھ لوگ ہی زندگی اور موت کے اس دلچسپ کھیل میں حصہ لے سکے ہیں اور محض پچیس سو ایسے خوش نصیب افراد ہوں گے جنہیں زندگی کی کشاکش سے چھٹکارا مل سکا۔ انہیں کوئی دکھ نہیں نہ وہ کسی کا غم کرتے ہیں وہ ابدی نیند سوتے ہیں جو لافانیت کے قدیم ترین مذہبی و عقلی معمے کی پراسرار اور اہم ترین پیچیدگیوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے دسترخوان کی کوئی نعمت ایسی نہیں جس کی اشتہا انہیں بیدار کر سکے اور نہ ہی اب تک کوئی ایسی سزا سوچی جا سکی ہے جو انہیں واپس ہوش میں لا پٹکے۔

ایک سورج اور ایک چاند والے سیارے کی سبھی فلاحی ریاستیں اور تمام تر صحت مند ملک دو ارب آبادی اور جان لیوا وبا والے فی الوقتی اکیلے ملک کو بدن سے ناسور کی طرح کاٹ پھینکنا چاہتے ہیں جہاں میں اپنی خود ساختہ قید کے دن رات انوکھی سواری بنانے کے لیے وقف کر چکا ہوں۔ انتہائی دانش مندانہ قیاس کے مطابق یہ مستقبل کی اہم ترین اور انقلابی ایجاد ہو گی جسے بعد میں بین الا اقوامی نجی کمپنیاں محض چند مزید سانسوں کے عوض اخباروں کی سرخیوں سے لے اڑیں گی اور تیسری دنیا کے ممالک میں امداد اور انسانیت پرستی کے نام پر کمپنی کی مزید نئی شاخوں کا افتتاح کریں گی۔

بندرگاہیں جہازوں سے اور جہاز ویرانی سے لدے پڑے ہیں۔ سمندر اپنے جہازوں کے کپتانوں کی اس قدر نا اہلی اور غیر ذمہ دار رویے سے سخت غضب ناک ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ وہ احتجاج کرنے میدانوں اور شہروں کو نکل پڑیں جہاں پہلے سے ہی خالم خالی سب وے ٹرینیں اور بسیں گلی کے آوارہ کتوں کی طرح وحشت ناک تھوتھنیاں لیے دندناتی پھرتی ہیں۔ ان کا بس چلے تو حرکت کے بنیادی اصولوں کو تہس نہس کرتے ہوئے یک دم ساکت ہو جائیں یا ان ہوٹلوں اور ریستورانوں سے جا ٹکرائیں جن کے گاہکوں اور خدمتگاروں کو اس خوفناک وبا نے ان کے اپنے مکانوں میں باندھ رکھا ہے۔

اپنے قبیلے کے مقدس نسب العین کے مطابق انسانیت کا سب سے بڑا روحانی پیشوا ہونے کے ناتے مجھ پر انوکھی سواری کی جلد از جلد تعمیر مکمل کرنے کی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے میں نے یاداشتوں کے نئے رجسٹر ترتیب دینا شروع کر دیے ہیں جن میں منٹ اور سیکنڈ ہی نہیں بلکہ مائیکرو سیکنڈ تک میں حاصل کی گئی کامیابی کا احوال تحقیقی مقالے کی سی شکل میں درج ہے تا کہ کسی بھی فنی و تکنیکی خرابی کو قبل از وقت درست کیا جا سکے کیونکہ اب میرے بعد کل انسانیت کا دارو مدار صرف اور صرف انوکھی سواری پہ ہو گا جو انہیں وبا کی آفتوں اور ہولناکیوں سے دور محفوظ مقام تک لے جانے کی واحد اور آخری امید ہے۔

یہ وبا کا سولہواں دن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments