تہذیبوں کا تصادم، عالمگیریت اور پروفیسر حراری


تہذیبوں کا تصادم Clash of civilization نامی تصور پر پہلے برنارڈ لویس Bernard Lewis نے لکھا تھا بعد میں سیمیویل ہنٹنگٹن Samuel Huntington نے اس تصور پر ایک مختصر سا مضمون 1992 میں شائع کیا تھا. اسی تصور کو بعد میں پھیلا کر ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ اس ایک مختصر سے مضمون نے ایک بہت اہم اور متنازعہ بحث کو جنم دیا جس کی بازگشت ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد بھی سنائی دی جاتی رہی۔ مسلم ممالک پر فوجی حملوں اور قبضے کے جواز کے طور پر اس تصور کا استعمال آپ کو یقیناً یاد ہوگا۔ ہمارے جیسے ممالک میں مغرب دشمنی کے لئے اس تصور کو ایک حقیقت بنا کر پیش کیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب Reconciliation: Islam, democracy and the West کے پانچویں باب میں تہذیبوں کے تصادم پر ہونے والی ساری گفتگو کا بہت عمدہ خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ اس تصور پر جو بحث 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں ہوئی تھی اب وہ اپنی شدت قدرے کھو بیٹھی ہے۔ اس بحث کے خاتمے کا سبب کیا یہ ہے کہ یہ گفتگو کسی نتیجے پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوگئی؟ اور تمام فریقین کسی ایک متفقہ نتیجے پر پہنچ کر خاموش ہوگئے ہیں؟ یا اب اس بحث کی سیاسی ضرورت باقی نہیں رہی؟ اس کا فیصلہ آپ خود فرمائیں

شاید آپ کو یاد ہو کہ یہ طالب علم Essentialism پر بارہا اپنی گزارشات پیش کرچکا ہے. 2018 کے انتخابات میں جب تحریک انصاف کام یاب ہوئی تو چند دانشوروں نے اس کامیابی کو پوسٹ ٹروتھ کا شاخسانہ قرار دیا۔ میں نے اس وقت بھی یہ استدلال کیا تھا کہ یہ پوسٹ ٹروتھ نہیں بلکہ Essentialism ہے۔ یہ تحریر “پوسٹ ٹروتھ اور حالیہ انتخابات” کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ Essentialism  کی تعریف کرتے ہوئے میں نے گزارش کی تھی کہ ہر تہذیب اپنے چند بنیادی خصائص Essence پر قائم ہوتی ہے۔ یہ بنیادی خصائص ایک تہذیب کو دوسرے سے مختلف شناخت عطا کرتے ہیں۔ یہ خصائص ہر تہذیب کے لئے نہ صرف باعث شناخت ہوتے ہیں بلکہ فخر و مباہات کا سبب بھی ہوتے ہیں۔

Samuel P. Huntington

تہذیب کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں آپ جانتے ہیں یہ علاقائی رسوم و رواج، زبان اور بیان، بنیادی رہن سہن، مذہبی طور طریقوں، آرٹس اور لٹریچر اور ذرائع پیداوار کا ایک ایسا مرقع( یا ملغوبہ) ہوتا ہے جس میں اجزائے ترکیبی کو علیحدہ علیحدہ دیکھنا قریباً ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن تہذیب کے ہر جزو کے ساتھ جذباتی وابستگی بہرطور فطری ہوتی ہے۔ یہ جذباتی وابستگی تب شدت اختیار کر لیتی ہے جب کوئی تہذیب اپنے کسی بھی جزو کے سبب خطرے کا شکار ہو جائے۔

مغرب میں مسلمانوں نے ستمبر 2001 کے بعد نمازوں کی ادائیگی کے لئے پہلے سے زیادہ مسجد جانا شروع کردیا تھا۔ حالانکہ ایسے ماحول میں جب مسجدوں پر حملے ہو رہے ہوں وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں تھا مگر مسلمانوں نے نمازوں کی ادائیگی کے لئے پہلے سے زیادہ مسجدوں کا رخ کیا۔ یہاں کام کرنے والے ڈاکٹرز نے ہسپتالوں کی انتظامیہ کو مجبور کر کے اپنے لیے Prayer rooms  حاصل کیے۔ کیا ستمبر 2001 کے بعد مغرب کے مسلمان پہلے سے زیادہ مسلمان ہوگئے تھے؟ جب بھی کوئی تہذیب یا اس سے منسلک کوئی بھی گروہ خطرے Ontological insecurity کا شکار ہوتا ہے اپنے گروہ کے ساتھ اس کی جڑت میں شدت آجاتی ہے۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے جیسے افراد کے ساتھ جڑے رہنے میں خود کو محفوظ خیال کرتے ہیں۔ ایسے گروہ زیادہ مضبوط Cohesive ہوجاتے ہیں ہیں ان کے افراد کے باہمی تعلق زیادہ گہرے اور پائیدار ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان گروہوں میں یکسانیت پر اصرار بڑھ جاتا ہے۔

گروہ اپنے اراکین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے متماثل رویے اور نظریات اختیار کریں جو رکن ذرا سا بھی مختلف ہو ایسے گروہ اس کو اپنے سے الگ کر دیتا ہے اور جو زیادہ مختلف ہو وہ غدار قرار پاتا ہے۔ زیادہ مضبوط Cohesive گروہوں میں مختلف سوچ، رائے، اور طریقہ کار اختیار کرنے والے بسا اوقات جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گروہی نظم سخت سے سخت ہوتا چلا جاتا ہے۔ گروہ کے لیڈر کی اطاعت اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ لیڈر کے احکام کی سرتابی پر سخت سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔۔۔۔ آپ کہیں گے تو یہ طالبعلم دورونزدیک کی درجنوں مثالیں دے سکتا ہے مگر اس سے بات طویل ہوجائے گی۔ مختلف تہذیبی گروہوں پر اگر آپ غور فرمائیں گے تو اس بات کے کھلے ثبوت آپ کے سامنے آجائیں گے۔ خطرات کی صورت میں اپنے گروہ سے وابستگی کو دوبارہ استوار کرنے کے عمل کو اس طالب علم نے Essentialism سے تعبیر کیا تھا۔

francis fukuyama

آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ دوبارہ اس موضوع پر اظہار خیال کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ کرم فرما نے مجھ سے پروفیسر حراری کی کتاب 21 Lessons for the 21st Century کے چھٹے باب Civilisation پر تبصرہ مانگا ہے۔۔۔ آپ میں سے جن اصحاب نے یہ کتاب اور اس کا یہ باب پڑھا ہے ان کو یاد ہوگا کہ اس باب میں حراری صاحب نے تہذیبوں کے تصادم کے تصور کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور دنیا میں صرف ایک ہی تہذیب کے استوار ہونے کی خوشخبری سنائی ہے۔ آپ میں سے جن حضرات نے یہ کتاب یا اس کا یہ باب نہ دیکھا ہو ان کے لئے پروفیسر حراری کے بنیادی استدلال کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

پروفیسر حراری نے کئی اور مصنفین کی طرح تہذیبوں کے تصادم کے تصور کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے جو بنیادی بات کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی انتہا پسندی صرف مغربی تہذیب ہی کے لیے خطرہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی تہذیب کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اس عالمی تہذیب global civilization کی وضاحت کرتے ہوئے وہ داعش کے خلاف امریکا اور ایران کے اتحاد کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح بظاہر ایک دوسرے کے مخالف ممالک نے مل کر ایک مشترکہ چیلنج کا مقابلہ کیا۔ وہ پنکج مشرا اور کرسٹوفر بی لیگ Bellaigue کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلم انتہاپسند مارکس اور فرانسیسی فلسفی مشعل فوکو سے متاثر تھے۔ میں نے بی لیگ کو نہیں پڑھا مگر پنکج مشرا کی کتاب Age of anger کے وہ صفحات میرے سامنے ہیں جہاں انہوں نے فوکو کی ایرانی انقلاب کی حمایت کے بارے میں بیان کیا ہے۔ غالبا مشرا صاحب نے فوکو کے ان مضامین کی جانب اشارہ کیا ہے جو فوکو نے اطالوی اور فرانسیسی اخبارات میں 1978 اور 1989 میں لکھے تھے جن میں انہوں نے ایرانی انقلاب کی پرجوش حمایت کی تھی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ فوکو جو ایرانی انقلاب سے پہلے ہی کمیونسٹ روس اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامل مغرب کی یکساں شدت کے ساتھ مخالفت کر رہے تھے نے ایرانی انقلاب کی حمایت کی تھی۔ وہ غالبا ایرانی انقلاب کے “لا شرقیہ ولا غربیہ” والے نعرے سے متاثر ہوئے ہوں گے اور خالی ہاتھ اور ننگے پاؤں مولویوں کے لائے ہوئے انقلاب سے “روحانی سیاست” کو برآمد ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہونگے۔ آپ اس کو فوکو کے تجزیے کی غلطی کہہ سکتے ہیں مگر حراری صاحب کی یہ بات بہرحال ثابت نہیں ہوتی کہ ایرانی انقلاب کے داعی فوکو سے متاثر تھے۔ آپ پنکج مشرا کی کتاب بھی دیکھ لیں انہوں نے بھی کہیں یہ نہیں کہا۔

yuval harari

واپس چلیے حراری صاحب کے بنیادی استدلال کی جانب کہ مسلم انتہا پسندی عالمی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ اپنے استدلال کو مضبوط بنانے کے لیے وہ مسلم انتہاپسندی سے ملتے جلتے رجحانات کو مغرب میں پوری کامیابی کے ساتھ دکھاتے ہیں اور جرمنی کی مثال دیتے ہوئے نازی جرمنی سے اینجلا مرکل تک کے جرمنی میں آنے والی تبدیلیوں کو نوٹ کرنے اور ان پر غور کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شاید وہ اسی طرح کی تبدیلیوں کو مسلم انتہاپسندی کے حوالے سے بھی آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور قاری کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ان کی توقع کریں اور جب وہ آئیں تو ان کو نوٹ کریں۔ آگے بڑھ کر وہ قدامت پسند یہودیوں کے عورتوں کے بارے میں ایسے رویوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جو مسلم انتہا پسندوں سے ملتے جلتے ہیں۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلم انتہاپسندی اپنی نوعیت میں کوئی اکیلا حادثہ نہیں ہے۔ اس سے متشابہ علامات اور خصائص اس مغرب میں پہلے سے موجود تھے جسکو ہنٹنگٹن صاحب کے بقول مسلم انتہاپسندی سے خطرہ ہے۔

عالمی تہذیب کی وضاحت غالباً اس باب کا زیادہ اہم حصہ ہے وہ اقوام متحدہ کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح 200 سے زائد اقوام ایک عالمی فورم پر چند متفقہ قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی ہیں۔ ملتاجلتا جمہوری نظام کس طرح ثقافتی لحاظ سے مختلف ممالک میں کار حکومت چلا رہا ہے۔ وہ اولمپک کھیلوں کی مثال دیتے ہیں جس میں دنیا کے تمام ممالک حصہ لیتے ہیں۔ وہ مختلف اقوام کے قومی پرچموں اور ترانوں میں موجود یکسانیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

ذاتی طور پر مجھے بہت لطف آیا جب حراری صاحب نے یہ بتایا کہ کس طرح دنیا بھر کے مختلف معاشرے بیماریوں کے لئے علاج کے مختلف طریقہ رکھتے تھے مگر اب بیمار چاہے کابل میں ہو یا واشنگٹن میں اس کے مرض کی تشخیص کے طریقے اور آلات ایک جیسے ہیں اور علاج کے لئے استعمال ہونے والی ادویات بھی ایک جیسی ہیں جو دنیا کی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے بنائی ہیں۔ یہ دوا جس طرح پیرس میں استعمال ہوتی ہے اسی طرح لندن میں اور اسی طرح بغداد میں۔

ان کی یہ کتاب 2018 میں شائع ہوئی تھی اگر وہ یہ کتاب آج لکھتے تو یقینا کرونا وائرس کی ممکنہ عالمگیریت globalisation کو بھی مثال کے طور پر شامل کرتے۔ گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے وہ یہ فرماتے ہیں کہ انسانیت کو اس وقت مشترکہ مشکلات کا سامنا ہے۔ جیسے کرونا وائرس کسی بھی ملک کے لئے ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔۔ مصنوعی ذہانت کا انسانی ذہانت سے آگے نکل جانا پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل کے لئے تمام ممالک اور تمام تہذیبوں کو اکھٹا ہونا پڑے گا جس سے عالمی تہذیب وجود میں آئے گی۔

چھوٹا منہ بڑی بات مگر ایک طالب علم کی حیثیت سے کیا پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر تشخیص و علاج کے مشترکہ طریقے ایک تہذیب کو جنم دے سکتے ہیں تو کیا ایک ہی کمپنی کے بنائے ہوئے اسلحہ کو استعمال کرنے والے پاکستان اور ہندوستان بھی اکھٹا ہو سکتے ہیں؟ ایک ہی فارمولے کے تحت بنائے جانے والے ایٹم بم کیا ایٹمی جنگ نہ ہونے کی گارنٹی دے سکتے ہیں؟ کیا ایک اقتصادی (سرمایہ دارانہ) نظام مختلف ممالک کو ایک دوسرے کی اقتصادی استحصال سے روک سکتا ہے؟

اس پورے باب میں حراری صاحب نے صرف ایک جگہ اور وہ بھی بہت سرسری طور پر بریگزٹ کا ذکر کیا ہے۔ ایک ہی سائنسی طریقہ تعلیم، مشترکہ اقتصادی نظام، جمہوریت، صنفی مساوات پر یکساں یقین، انسانی حقوق اور ان جیسے دیگر کئی مشترکات کے باوجود بریگزٹ ہو کر رہا۔ سکاٹ لینڈ میں علیحدگی پسندوں نے مکمل کامیابی حاصل کی ہے۔ آئرلینڈ میں پہلی مرتبہ شن فین ایک بڑی کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ شن فین آئرش ری پبلکن آرمی IRA کا سیاسی بازو سمجھی جاتی ہے اور شمالی آئرلینڈ کی برطانیہ سے آزادی کا دیرینہ مطالبہ رکھتی ہے۔ ویلز میں بھی علیحدگی پسند تحریک سر اٹھا رہی ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ ایک دیوار تعمیر کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ اسرائیل کامیابی سے ایک دیوار تعمیر کرنے کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ ایک مشترکہ ریاست کے خواب کو چکنا چور کر چکا ہے۔ ہندوستان میں نریندرامودی شہریت کے نئے قوانین متعارف کرا رہے ہیں۔

وہ ہندوستانی دانشور، فنکار اور ادیب جو پاکستانیوں کو سیکولرازم پر لیکچر دیتے نہیں تھکتے تھے اب اپنے منتخب وزیراعظم کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں جو کبھی پاکستانی اپنے فوجی ڈکٹیٹروں کے بارے میں کہتے تھے۔ اروندتی رائے جمہوریت کو برملا فری مارکیٹ اکانومی کا ایک ہتھیار قرار دیتی ہیں۔ صرف بیس سال پہلے تک کون کہہ سکتا تھا کہ نہرو اور گاندھی کے ہندوستان کے وزیر اعظم کا موازنہ اٹلی کے مسولینی اور جرمنی کے ہٹلر سے ہو رہا ہوگا۔ کیا مودی اور ان کی بی جے پی کو آپ یہ باور کرا سکتے ہیں کہ ہندوستان کے باشندوں کو چونکہ ایک جیسی ایسی بیماریوں کا سامنا ہے اور ان کو ایک جیسی ادویات کی ضرورت ہے اس لیے وہ شہریت کے قوانین کو واپس لے لیں؟

جن عالمی مشترکات اور خطرات کی جانب حراری صاحب نے اشارہ فرمایا ہے اس سے مماثل صورتحال شاید انسانی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہی ہے مگر ایسی صورتحال انسانوں کو کبھی بھی متحد نہیں رکھ پائی۔ عالمگیریت چاہے وہ اقتصادی ہو ثقافتی ہو یا علمی۔۔ پچھلے تیس سالوں میں سوائے استحصال کے نئے طریقوں کے دنیا کو کچھ بھی نہیں دے سکی۔ استحصال کے ان طریقوں نے انسان کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ontologically insecure بنایا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اصل Essence کی جانب لوٹنے پر مجبور ہوگیا ہے اس بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کا نعرہ سیاسی اور غیر حقیقی تھا۔ تاہم جتنا تہذیبوں کا تصادم غیر حقیقی تھا عالمگیر تہذیب کا نعرہ بھی اس سے کم غیر حقیقی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments