امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی اور چین مخالف پروپیگنڈا


عمومی طور پر میڈیا اداروں کے لیے ایک جملہ استعمال کیا جاتا ہے کہ ہم آزادی اظہار کے داعی ہیں۔ صحافت جیسے معزز پیشے کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے کچھ سولات ذہن میں آتے ہیں کہ کیا آزادی اظہار کی کوئی حد بھی ہوتی ہے؟ کیا آزادی اظہار پیشہ ورانہ اخلاقی قواعد و ضوابط کے تابع ہے؟ کیا کسی ملک، قوم یا کسی فرد کی تضحیک اور توہین بھی آزادی اظہار کے زمرے میں آتی ہے؟

ان سوالات کی بنیادی وجہ معروف امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے ایک چین مخالف توہین آمیز مضمون کی اشاعت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے اور بطور مبصر اس سے جڑے واقعات کا عینی مشاہدہ ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ تین فروری کو وال سٹریٹ جرنل میں والٹر رسل میڈ کا ایک مضمون شائع ہوا جس کی شہ سرخی کچھ یوں تھی کہ چائنا از دی رئیل سک مین آف ایشیا یعنی آسان الفاظ میں اگر ہم اردو میں لکھیں تو چین کو ایشیا کا حقیقی بیمار شخص قرار دیا گیا ہے۔

https://www.wsj.com/articles/china-is-the-real-sick-man-of-asia-11580773677

اس مضمون میں چین میں نوول کرونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کی موجودہ صورتحال اور اب تک کی مثبت پیش رفت کو سراہنے کے بجائے یہاں تک کہا گیا کہ چین کی مالیاتی منڈی اس کی جنگلی حیات کی منڈیوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ مضمون میں ایسے غیر مناسب الفاظ کا چناؤ کیا گیا جو ایک عالمی ادارے کے شایان شان نہیں ہے۔

اس توہین آمیز مضمون کے حوالے سے چینی حکومت نے شدید احتجاج کیا اور ادارے سے اپنی غلطی کے ازالے سمیت معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔ چینی شہریوں نے بھی نسل پرستی پر مبنی مضمون کی اشاعت پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ وال سٹریٹ جرنل اپنی غلطی کا ادراک کرتے ہوئے چین سے معافی طلب کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا وال سٹریٹ جرنل نے اگرچہ مضمون کی اشاعت پر افسوس کا اظہار ضرور کیا تاہم کوئی ایسا ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے چینی عوام کا غم و غصہ رفع ہو جاتا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مضمون کے مصنف سارا ملبہ وال سٹریٹ جرنل کے ادارتی بورڈ پر ڈالتے ہیں۔ بلا آخر چینی حکومت کو وال سٹریٹ جرنل کے چین میں کام کرنے والے تینوں نامہ نگاروں کی صحافتی اسناد منسوخ کرنے کا سخت قدم اٹھانا پڑا اور چین کی جانب سے ان تینوں صحافیوں کو جلد ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

اس مضمون کی اشاعت پر وال سٹریٹ جرنل کو نہ صرف عالمی میڈیا اداروں سے وابستہ شخصیات نے تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اُسے چین میں موجود اپنے عملے کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ادارے کے ترپن ملازمین نے انتظامیہ کے نام ایک ای میل میں مطالبہ کیا کہ مضمون کی شہ سرخی میں توہین آمیز اور نسلی امتیاز پر مبنی جملوں کے استعمال پر چین سے معافی طلب کی جائے اور شہ سرخی کو درست کرتے ہوئے ایک موزوں فیصلہ کیا جائے۔ ای میل میں کہا گیا کہ شہ سرخی کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب نہیں کیا گیا ہے لہذا غلطی تسلیم کرتے ہوئے موضوع کی درستگی سمیت چین سے معافی طلب کی جائے۔ ای میل میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اس معاملے کو وال سٹریٹ جرنل کے چین میں موجود عملے کے بہترین مفاد میں احسن انداز سے حل کیا جائے۔

وال سٹریٹ جرنل کے ترجمان نے چینی حکومت اور چینی عوام کے شدید احتجاج اور ملازمین کو درپیش مسائل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا کہ مضمون کی اشاعت کے حوالے سے ادارے کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی وال سٹریٹ جرنل کے حامی نظر آئے اور اس فعل کو آزادی اظہار قرار دیا۔

بطور صحافی میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک میڈیا ادارے کی جانب سے کسی ملک اور قوم کے خلاف پہلے توہین آمیز الفاظ کا استعمال اور بعد میں اپنی غلطی تسلیم نہ کرتے ہوئے معافی سے انکار۔ کیا امریکہ اس کو آزادی اظہار کا نام دیتا ہے؟ دوسری جانب ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ امریکی حکام سے سخت سوالات کرنے والے صحافیوں کے ساتھ کیا ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اکثر میڈیا ادارے زیرعتاب آتے رہتے ہیں۔

اس صورتحال میں چین کی جانب سے تین واضح سوالات کیے گئے کہ ادارے کی جانب سے کیوں ایک ایسا توہین آمیز مضمون شائع کیا گیا جس سے چینی عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے؟ مضمون کی شہ سرخی کے لیے نسل پرستانہ الفاظ کا استعمال کیوں کیا گیا؟ اور اب تک کیوں ادارے کی جانب سے اپنی غلطی تسلیم نہ کرتے ہوئے معافی نہیں مانگی گئی ہے؟ لیکن ان سوالات کے جوابات ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔

چین نے دوٹوک موقف اپنایا کہ ایسے کسی بھی معاملے میں خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی، چین غیر ملکی صحافیوں کو قوانین و ضوابط کے تحت پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا ہے۔ لیکن ایسے میڈیا ادارے جو سر عام چین کی توہین کرتے ہیں، نسلی امتیاز کو ہوا دیتے ہیں اور بدنیتی سے چین مخالف سرگرمیوں پر عمل پیرا ہیں، ایسے اداروں سے سختی سے نمٹا جائے گا یہی وجہ ہے کہ چین امریکی صحافیوں کو ملک بدر کرنے کے اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم ہے۔

یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی ملک سے متعلق بیمار شخص جیسے الفاظ کا استعمال ایک عالمی میڈیا ادارے کو زیب دیتا ہے۔ چینی حکومت اور پوری چینی قوم اس وقت کرونا وائرس کووڈ 19 کے خلاف برسرپیکار ہے اور چین عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کے لیے عظیم قربانیاں دے رہا ہے ایسے میں بجائے چین کی حوصلہ افزائی اور حمایت کے اگر توہین آمیر رویہ اپنایا جائے گا تو میرے نزدیک یہ آزادی اظہار ہر گز نہیں بلکہ چین کے خلاف تعصب اور بدنیتی ہے۔

نسلی امتیاز پر مبنی ایسی شہ سرخیاں آزادی اظہار کی نفی ہیں اور میڈیا اخلاقیات اور صحافتی ضابطہ اخلاق سے واضح انحراف ہے۔ کسی بھی قوم کے جذبات سے کھیلنا دنیا کے کسی میڈیا ادارے کو زیب نہیں دیتا اور نہ ہی غیرت مند قومیں ایسے کسی فعل کی اجازت دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments