ٹرمپ بھارت میں پاکستان سے ووٹ مانگنے آیا ہے
ہمارے اداروں کو سیاستدان مشکوک لگتے ہیں اور سیاستدانوں کو انتخابات کے نتائج۔ جمہوری تجربات میں یہ ادارے جتنی ناکامیاں سمیٹ چکی ہیں، انتخابی نتائج میں اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شاید انیس سو اکہتر کی انتخابات کے علاوہ کوئی ایسے انتخابات ہوں، جو مشکوک متنازع اور دھاندلی زدہ نہ ہوں۔ پھر اکہتر کے انتخابات کا جو نتیجہ نکلا، اس کے بعد بھی اس جیسا تجربہ کون چاہتا ہو گا؟
انتخابات سے من چاہے نتائج حاصل کرنے میں ہمیں جو ملکہ حاصل ہے۔ شاید ہی کسی ملک کی مشینری کو اس کا عشر عشیر بھی حاصل ہو۔ ضیاء الحق کے دست راست جنرل فضل حق کو الیکشن کا مرحلہ درپیش ہوا، تو چترال کے حلقے سے ان کو منتخب کرانے کا انتخاب کیا گیا۔ حساب کتاب کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ چترال کا ایک حصہ تو جرنیل صاحب کو ووٹ دے دے گا۔ لیکن دوسرا جرنیل صاحب کے خلاف ہے۔ جرنیل مخالف سیاسی جذبات کے علاوہ، حکومت نے ان لوگوں کے جنگلات کے رقم کی رقم ادائیگی بڑی مدت سے روکی ہوئی تھی۔
جرنیل صاحب نے روکی ہوئی رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا، لیکن پھر بھی نتیجہ فیصلہ کن حد تک ان کے حق میں تبدیل نہیں ہوا۔ انتخابات سے ہفتہ پندرہ دن پہلے سرکار نے جنگلات کی رقم، لوگوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے واگزار کرا دی۔ لیکن لوگوں تک پہنچنے سے پہلے وہ راستے میں ڈاکوؤں نے لوٹ لی۔ اب جرنیل صاحب کی شکست بالکل یقینی تھی۔ کیونکہ لوگ تو پہلے سے جرنیل صاحب کے خلاف تھے۔ لیکن دھاندلی کیے بغیر جرنیل صاحب بڑی آسانی سے الیکشن جیت گیا۔ کیونکہ جس آبادی کے پیسے لوٹے گئے تھے۔ اس نے رقم الیکشن سے پہلے نہ ملنے کی صورت میں الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ الیکشن ہونے کے بعد ”خوش قسمتی“ سے ان کی لوٹی ہوئی رقم بھی مل گئی۔
ہم صرف اپنے انتخابات سے حسب توقع نتائج حاصل کرنے کی مہارت نہیں رکھتے، بلکہ بین الاقوامی انتخابات سے بھی مرضی کے مطابق نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کے حالیہ دورے میں پاکستانی پالیسیوں اور دونوں حکومتوں کے درمیان بہتر تعلقات کا ذکر کیوں کیا؟ اس کا تعلق پاکستان کے ذریعے انتخابات میں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت سے ہے۔ کیونکہ چار عشروں پر محیط امریکی انتخابات پر سب سے زیادہ اثرانداز اور انتخابات میں مثبت نتائج دلانے والے سنیاسی بابا کا تعلق پاکستان سے ہے۔
کارٹر اور کلنٹن کے علاوہ، جتنے بھی امریکی صدور وائٹ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سب کی کامیابی میں پاکستان کا ہاتھ تھا۔ امریکی انتخابات میں پاکستانی مداخلت اتنی خفیہ اور ماہرانہ انداز میں کی جاتی ہے۔ کہ شک کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ ٹرمپ کے حق میں گذشتہ امریکی انتخابات کے دوران روسی مبینہ مداخلت پر ابھی تک تحقیقات جاری ہیں۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ، روس، انڈیا اور افغانستان کے انتخابات سے بھی پاکستان نے کئی بار اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے ہیں۔
روسی صدر گورباچوف پولٹ بیورو کے دانشور ممبران میں سے تھا۔ اسے تاریخی گورباچوف بنانے میں افغانستان میں پاکستان کی جوابی مداخلت نے کردار ادا کیا۔ کارٹر امن کے لئے نوبل انعام یافتہ تھا۔ لیکن دوسری صدارتی ٹرم میں اس لیے ناکام ہوا کہ پاکستان کی افغان پالیسی سے میل نہیں کھاتا تھا۔ جبکہ اس کے بعد آنے والا رونلڈ ریگن ایک ناکام اداکار ہونے کے باوجود، پاکستان کی افغان پالیسی کا ساتھ دینے، سے نہ صرف دو دفعہ صدر بنا، بلکہ امریکی تاریخ ساز صدور میں شمار ہوتا ہے۔ یہی صورت حال برطانیہ کی آئرن لیڈی کہلائی جانے والی مارگریٹ تھیچر کی بھی رہی۔ پاکستانی پالیسی سازوں کے ساتھ دینے کی وجہ سے بار بار منتخب ہوتی رہی۔ جب کہ اس کے بعد آنے والے اکثر برطانوی وزراء اعظم نہ صرف یہ کہ اپنی مدت مکمل نہ کرسکے بلکہ شرمندگی کے مارے معافیاں بھی مانگنی پڑیں۔
روس کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں کتنی حکومتیں آئیں، اور کس کی وجہ سے قائم ہوئیں؟ کوئی راز کی بات نہیں۔ ربانی، حکمت یار، مجددی، ملا عمر، یا کرزئی کن کی اشیرباد سے راج سنگھاسن پر بیٹھے ہر کوئی جانتا ہے۔ موجودہ صدر اشرف غنی کی جیت بھی پاکستان کی افغان انتخابات میں عدم مداخلت کی بنا پر ممکن ہوئی۔ عدم مداخلت کرکے اشرف غنی کو واک اوور دیا گیا۔
سب سے شاندار حاصل کردہ نتیجہ بش جونئیر کا تھا۔ بش جونئیر جب دوسری ٹرم کے لئے انتخاب لڑ رہا تھا، تو عمومی جائزوں اور ماہرین کی تجزیوں کے مطابق ان کے مخالف کو ان پر واضح برتری حاصل تھی۔ انتخابی کمپین ختم ہونے سے دو دن پہلے میلوڈی مارکیٹ اسلام آباد میں موجود، الجزیرہ ٹی وی کے دفتر میں کسی نامعلوم پیغام بر نے ایک سربمہر لفافہ چھوڑا۔ جس میں پڑے وی سی آر کیسٹ میں اسامہ بن لادن کا امریکی ووٹروں کے لئے ایک دھمکی آمیز پیغام موجود تھا کہ اگر انہوں نے آنے والے انتخابات میں بش کو دوبارہ ووٹ دے کر منتخب کیا، تو وہ ان پر نائن الیون سے بڑھکر مہلک حملے کرنے میں حق بجانب ہوگا۔ (اسامہ کو مارنے کے بعد جو کاغذات ہاتھ لگے تھے ان سے ثابت ہوا تھا کہ وہ کئی سالوں سے اس گھر میں نظربند، سعودی امداد پر پلتا، بچے پیدا کرتا رہا تھا)۔ امریکی ووٹروں کو باور کرائے گئے ان کے دشمن نمبر ایک کی دھمکی کا جو اندازہ لگایا گیا تھا۔ اس کا وہی اثر ہوا۔ بش کامیاب ہوا۔
بش کی دوسری ٹرم کی طرح اوبامہ کی دوسری ٹرم کا انتخاب بھی پاکستان اور اسامہ کی مرہون منت رہا۔ اوبامہ نے بیروزگاری مہنگائی اور کساد بازاری کے ساتھ گونتانامو کی بندش اور افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے وعدے کیے تھے۔ لیکن ایک بھی وعدہ پورہ نہیں کیا۔ اس لیے دوسری ٹرم کے لئے اس کی حالت بھی بش جونئیر جیسی تھی۔ یوں بش جونئیر والا نسخہ آزمایا گیا۔ ایک صبح خبر ملی کہ امریکی کمانڈوز نے خوفناک دہشت گرد کو ایبٹ آباد میں اس کے قلعہ نما گھر میں مارا اور لاش ساتھ لے گئے۔ اوبامہ نے اپریشن کی اجازت دینے کا کریڈٹ لے کر اپنے کمانڈوز کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی شکریہ اپنی تقریر میں ادا کیا۔ چند مہینے بعد اوبامہ کو امریکیوں نے دوبارہ منتخب کیا۔
بھارت میں حالیہ انتخابات کے دوران مودی کو بھی بش جونئیر اور اوبامہ کی طرح دوسری ٹرم کے لئے مشکلات کا سامنا تھا۔ پلوامہ میں دہشت گرد حملہ کرتے ہیں۔ مودی اس کا الزام پاکستان پر لگا کر سبق سکھانے کی دھمکی دیتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ پورے بھارت میں ایک مصنوعی جنگی ماحول تخلیق کردیتا ہے۔ پھر ایک رات اسی ایبٹ آباد میں جہاں پر اوبامہ نے اوسامہ کو مارنے کے لئے حملہ کروایا تھا، رات کی تاریکی میں ہوائی جہاز بھیج کر حملہ کرتا ہے۔ جبکہ قریبی رہائشیوں نے صحافیوں کو بتایا کہ جس مدرسے پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ ہفتوں پہلے خالی کردیا گیا تھا۔ اس ہوائی حملے کے بعد دونوں ممالک کے ترجمانوں نے وضاحت در وضاحت کی خاطر زبانی کلامی اور ٹویٹس کے ذریعے موجود خلفشار کو مزید بڑھا دیا۔ خاطر خواہ نتائج کے حصول کی خاطر ایک دفعہ پھر جہاز بھیجے گئے۔ جن میں دو جہاز پاکستان نے گرا کر ایک پائلٹ کو گرفتار کردیا۔ جس کو چند دن کے بعد بحفاظت مودی کو الیکشن کے تحفے کے طور پر لوٹا دیا گیا۔ مودی نے پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے تقریر میں کہا۔ کہ پاکستان میں اتنی جرات نہیں کہ ہمارا پائلٹ رکھ سکے۔ ہمارے وزیراعظم نے بیان دیا، کہ اگر مودی دوبارہ منتخب ہوا تو پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔ نورا کشتی سے مودی منتخب ہوا۔ پاکستان کے حق میں کیا بہتر ہوا؟ پکچر ابھی باقی ہے۔
یہی پس منظر ہے جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ نے بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان کی تعریف کی۔ ٹرمپ کو بھارتی امریکیوں کی ووٹوں کی ضرورت تو ہے۔ لیکن پاکستان کی مدد کے بغیر امریکی فوج کی واپسی ممکن ہے نہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ۔ ٹرمپ بھارت میں پاکستان کی تعریف کرکے دراصل پاکستان سے اپنے لئے ووٹ مانگ رہا تھا۔ دیکھتے ہیں، پاکستان اس دفعہ امریکی انتخابات پر اثرانداز ہو کر ٹرمپ کو منتخب کراتا ہے یا نہیں؟
- صدارتی دنگل: جمہوریت بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ - 04/03/2024
- اینف از اینف (Enough is enough) پر ایمل ولی خان سے 22 سوال - 15/02/2024
- انتخابی حقائق کی روشنی میں پختون سیاست کا نیا رخ - 11/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).