مرتے وقت انسان کے پانچ پچھتاوے


زندگی بر ف کاٹکڑا ہے جو آہستہ آہستہ پگل کرختم ہوجاتا ہے لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ جب آپ بستر مرگ پرآخری سانسیں لے رہے ہوں گے تو آپ کس بات پر پچھتائیں گے۔ آسٹریلین نرس برونی ورنر ایک ایسے ادارے میں کام کرتی تھیں جہاں ان لوگوں کورکھا جاتا جن کادنیاسے رخصت ہونا طے ہوتا۔ برونی 12 سال تک ہرمرنے والے شخص سے اس کے آخری پچھتا وے پوچھتی رہیں اور 12 سال کے تجزیے اور انٹرویوز کے بعدانہوں نے 2012 میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا The Top Five Regrets of the Dying۔

برونی کہتی ہیں جب انسان زندگی کے آخری لمحات سے گزرتا ہے تو اس کوسب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ جو چاہتا تھا وہ نہیں کرسکا اس نے ساری زندگی دوسروں کے کہنے پر گزار دی۔ عملاً اگر ہم غور کریں تو کہیں نہ کہیں ہماری زندگی بھی ایسے ہی گزرتی ہے۔ کوئی شخص گلوکار، پینٹر یا آرٹسٹ بننا چاہتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنا کر دم لیتے ہیں اور یوں وہ روز صبح اٹھ کر خود کو کوستا ہے۔ بے دلی سے نوکری کرتا ہے اور آخر میں ایک پچھتاوادل میں لئے دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔

انسان کا دوسرا افسوس یہ ہوتا ہے کہ کاش وہ اتنازیادہ کام کرکے خود کو نہ تھکاتا۔ ساری زندگی انسا ن اس قدر مصروف رہتاہے کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر کچھ دیکھ ہی نہیں پاتا۔ ہم بیس بائیس سال کی عمر میں کام شروع کرتے ہیں اور اس وقت تک کام کرتے ہیں جب تک ہاتھ پاؤں جواب نہ دے جائیں۔ ہم پیسے بھی کمالیتے ہیں لیکن بدن اتناتھک جاتا ہے کہ ہم یہ سوچنے پرمجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم نے خود کو جتنا درد دے کر یہ دولت حاصل کی ہے شاید اتنی دولت کمانے کی ضرورت تھی ہی نہیں تھی۔

بستر مرگ پر انسان کا تیسرا غم یہ ہوتا ہے کہ کاش وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں اور رشتے داروں سے اپنی محبت کا اظہارکرپاتاوہ انہیں بتاتا کہ اسے ان سے کتنا پیار تھا۔ یہ کاش بھی انسان کے ساتھ اس کی قبر میں اتر جاتا ہے۔ کام کی مصروفیات میں اسے اتنی فرصت بھی نہ ملی کہ وہ اپنوں سے محبت کے دوجملے بول پاتا۔ مرتے وقت انسان کاچوتھا غم یہ ہوتا ہے کہ کاش وہ دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار پاتا انسان سوچتا ہے کہ میں نے خودپر مصروفیت کو اتنا طاری کرلیا کہ دوستوں کووقت ہی نہ دے پایا۔

ہم جیسے جیسے نوکری یاکاروبار کو وقت دیتے ہیں ہماری پرانی دوستیاں ختم ہوتی رہتی ہیں ہمارے دوست جدا ہوتے رہتے ہیں اور پھر دفتر میں کام کرنے والے ساتھیوں کو ہم دوست سمجھنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی دفتربدلتا ہے ساتھی بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک طویل مدت بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کاش ہم اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ تعلق قائم رکھتے۔ ہم ساری زندگی دولت، عزت، شہرت اور آسائشوں کو اہم سمجھتے ہیں لیکن بستر مرگ پربے جان جسم لئے انسان سوچتا ہے کہ یہ سب توسراب تھا ہمیں خوشی کواہمیت دینا چاہیے تھی اور ہم اُس کاغذ کے پھول سے خوشبو سونگنے کی کوشش کرتے رہے جس میں زندگی تھی ہی نہیں۔

اگر آپ آخری لمحات میں افسوس کے بجائے سکون اور اطمینان کے ساتھ رخصت ہوناچاہتے ہیں تو وہ کیجئے جو کرنا چاہتے ہیں، اتنا کام نہ کریں کہ خود کو بری طرح تھکا لیں، اپنے عزیزوں سے محبت کا اظہار کیجئے، پرانی دوستوں کو فراموش نہ کریں اور خوشی کو اہمیت دیں۔ مختصر سی زندگی میں اگرہم ان پانچ پچھتاوں کو ذہن میں رکھیں تو زندگی میں بھی خوش رہیں گے اور مسکراتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments