مانوس منزلوں کے سبھی خواب لٹ چکے


سب کچھ وہی ہے آب و ہوا اجنبی سی ہے
اپنے ہی گھر میں ہوں یہ عجب بے گھری سی ہے

مانوس منزلوں کے سبھی خواب لٹ چکے
انجان راستوں میں وہی دلکشی سی ہے

اس شہر بے چراغ کے دیوار و در کے ساتھ
دل تو لگا لیا ہے مگر بے دلی سی ہے

آئین شکن کوئی تو کوئی آئنہ شکن
ہر راہ بر میں فطرتاً بے راہ روی سی ہے

منظر تراش لوگ بھی نامطمئن سے ہیں
خلق خدا کی بھیڑ میں بھی برہمی سی ہے

گو کھل کے بولتے نہیں دانشورانِ عصر
کچھ ان کی گفتگو میں بھی شرمندگی سی ہے

غاروں کا رزق ہو گئے ہم اس فریب میں
غاروں کے اس دہانے پہ اک روشنی سی ہے

پاؤں نہ جم سکے بڑی کوشش کے باوجود
مٹی مری زمین کی کچھ بھربھری سی ہے

کھڑکی سے روز جھانکتا ہے نیلگوں فلک
عرفاں مگر عجیب بے بال و پری سی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments