سوشل الرٹ: ہمارے معاشرے میں فیمنزم کا پیغام منفی جا رہا ہے!


پاکستان کی خواتین جب فیمنزم یا حقوق نسواں کی دوڑ میں شامل ہوئیں تو عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین کافی بڑی کامیابیاں حاصل کر چکی تھی مثلاً۔ خواتین کا سیاست میں کردار۔ خواتین کے ووٹ کا حق۔ اسے فیمنزم کا پہلا دور کہا جاتا ہے جو انیسویں صدی کے آخیر میں امریکہ اور یورپ میں شروع ہوا اور اس نے بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں تک سفریج یا ووٹ کا حق حاصل کر لیا تھا۔ اس لحاظ سے پاکستانی خواتین کو ووٹ کا حق تو پیدائشی حق کی طرح نصیب ہو ا۔

تحریک پاکستان میں خواتین کا کردار مثالی رہا۔ ہم تو وہ خوش نصیب قوم ہیں جس کے سیاسی منظر نامے پہ خواتین بڑی توقیر کے ساتھ نمایاں کردار ادا کرتی رہیں ہمارے قائد کے اس فرمان کے عین مطابق کہ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں جن کی خواتین کو چار دیواری میں محصور کیا گیا ہو۔ تحریک پاکستان سے بھی کہیں پہلے انیسویں صدی کے ابتدائی دہائیوں میں بی اماں ( جو کہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ تھیں ) نے انگریز سامراج کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

ہندوستان کے ہر مسلمان کے تفاخر کو اپنا مسلم اثاثہ جان کر ہم اس پہ بھی فخر کیے لیتے ہیں۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم جہاں آرا شاہ نواز، بیگم شائشہ اکرام اللہ، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور ایسے کئی بڑے نام ہمیں روشن مثالوں کی طرح دمکتے نظر آتے ہیں۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کی وزیر اعظم کی حیثیت سے اقوام عالم میں پاکستان کا نام قابل ستائش بنایا۔ اس کے علاوہ وہ تمام پاکستانی خواتین جو کسی بھی شعبے میں اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں، نمایاں ہیں، قابل فخر ہیں۔ وہ مائیں جو گھر کے اندر اپنی اولاد کو ایک اچھے ماحول کے ساتھ ساتھ لائف سکلز کی تربیت دے رہی ہیں، باہر کام کرنے والی کسی خاتون سے کم نہیں۔ جو اپنی اولادوں کو سرحدوں کی حفاظت کے لئے خود سے جدا کرتی ہیں، ان کی عظمت کو سلام۔

پاکستانی خواتین جب اس دوڑ میں شامل ہوئیں تو دراصل عالمی سطح پر یہ فیمنزم کے نام پہ چلنے والی تحریک کا دوسرا دور تھا۔ تحریک آزادیء نسواں کا دوسرا دور 1960 سے 1980 کے دوران چلتا ہے اور اب کی بار سوال اٹھایا جاتا ہے عورت کے سماجی استحصال کا۔ اور یوں یہ ایک اخلاقی تحریک ہی نہیں رہی بلکہ ایک طرح سے انسانی حقوق کی تحریک بن گئی جس کے تحت عورت کے جنسی، معاشی، سیاسی غرضیکہ ہر طرح کی تفریق کو ختم کرنے کے لئے آواز اٹھائی گئی۔

اسی دوران 1966 میں پہلی دفعہ ’آزادیٔ نسواں‘ کا لفظ بین الاقوامی اخباروں کی سرخی بنا جس کا مطلب یقیناً عورت کو محض چاردیواری کا قیدی بنائے جانے یا بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھنے کی دقیانوسی سوچ سے آزاد کرنا تھا اور اسے اپنی زندگی کا مختار بننے کا حق دلوانا تھا۔ پاکستان کی تعلیم یافتہ عورت نے اس کو اپنا حق سمجھ کر جوں کا توں تسلیم کیا اور اپنی شناخت سے محظوظ ہوئی۔ 1990 کی دہائی میں باہر کی دنیا میں شروع ہونے والا فیمنزم کا تیسرا دور ایک ہنگامہ تھا۔

اب کی بار ’عورت اور مرد کی برابری‘ کی آواز اٹھائی گئی۔ مگر اس کے بعد اس تحریک میں محض شور اور ہنگامہ ہی رہ گیا۔ یہ ہنگامہ پاکستان بھی منتقل ہوا۔ اب کی بار فیمنزم کی یہ تحریک حقوق نسواں کی کم اور مردوں کے خلاف اعلان جنگ زیادہ محسوس ہوئی۔ اتنے برسوں میں ایک اور کام بھی خراب ہوا۔ وہ یہ کہ وہ جو عورت در حقیقت بنیادی حقوق اور شخصی انفرادیت سے محروم تھی وہ اس ریلے میں کہیں پیچھے رہ گئی۔ اور حقوق نسواں کا علم تھامے جو خواتین مرد سے حقوق چھیننے کے لئے چلیں وہ تو پہلے سے ہی تعلیم یافتہ، معاشی طور پہ مستحکم اور قدرے با اختیار تھیں۔ یہاں سے خواتین کے مابین بھی تفریق در آئی۔ اور خواتین کی اُس اقلیت کی آواز کہیں دب کے رہ گئی کہ دراصل جس کے حقوق کی بات کرنا کبھی اس تحریک کا مقصد تھا۔

آزادی نسواں یا فیمنزم کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اس بنیادی بات کو جاننا ضروری ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح ایک انسان ہے۔ دوسری اہم بات اس تصور کو زائل کرنا ہے کہ یہ جنگ صنف قوی کے خلاف ہے۔ یہ تصور درست کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ جنگ ہی ٹھہری تو یہ جنگ چند ظالم اور جاہل مردوں کے خلاف ہے نہ کہ ہر مرد کے خلاف۔

خواتین کے حقوق کی تنظیموں کا اصل مقصد تو مظلوم اور کمزور خواتین کا ہاتھ پکڑ کر استحصال کے گڑھے سے نکال کر استحقاق کے مقام تک لانا ہے۔ عورت کو زندگی کی نئی راہوں سے متعارف کرانا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے کو انسانوں کا معاشرہ بنانا ہے۔ مگر آج پاکستان میں حقوق نسواں کا پیغام عورت پہ جبر، استحصال، اور ہراسگی کی بجائے عورت کی بیباکی، بے حیائی اور بے لگامی کا استعارہ بن گیا ہے۔ کیا فیمنزم کے علمبرداروں کا کوئی کوالٹی کنٹرول نہیں ہے؟ کیا ان خواتین مارچ کو لے کر سڑک پہ آنے والی تنظیموں کی مانیٹرنگ اور جائزہ اسی قدر ناقص ہے کہ وہ اس کی افادیت کا گرتا ہوا گراف نہیں دیکھ پا رہیں؟ یا پھر یہ کہ فیمنزم کے مقاصد بدل گئے ہیں؟

وہ نا خواندہ اور پسماندہ عورت جو روایات اور جبر کی چکی میں کل پس رہی تھی، آج بھی پس رہی ہے مگر تعلیم یافتہ فیمنسٹ کو لباس اور تعلقات کی آزادی درکار ہے۔ بیوہ اور مجبور یتیم عورت کو آج بھی اپنے حقوق نہیں مل رہے مگر شادی شدہ خوشحال فیمنسٹ مرد کو کھانا گرم کر کے دینے سے انکار ہے۔ ایک طرف غیرت کے نام پہ سزا کی حقدار عورت ٹھہرتی ہے اور دوسری طرف فیمنسٹ عورت اپنے ساتھیوں سے گلے ملتے، گال سے گال ملاتے اچانک ہراساں ہو جاتی ہے۔

ایک طرف تیزاب سے چہرے جھلسا کر انھیں ہمیشہ کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے اور دوسری طرف فیمنسٹ پڑھی لکھی لڑکیاں سوشل میڈیا پر لّلو کو کنٹرول نہ کرنے کی دھمکیاں دیتی دکھائی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فیمنزم عورت کے حقوق کا نام ہے یا عورت کے مکر کا؟ آج کے پاکستان میں فیمنزم کے برینڈ سے چلنے والی یہ جو بھی تحریک ہو، خواتین کے حقوق کی آواز ہر گز نہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مجبور خواتین کا استحصال یہی تحریک کر رہی ہے۔ آج پاکستان میں عورت مارچ عورت کی بے لگامی کا استعارہ بن گیا ہے۔

میرا آج کا مقدمہ یہی ہے کہ آج فیمنزم کا پیغام غلط روش اختیار کر گیا ہے۔ آج ’آزادی‘ اور ’بے راہ روی‘ میں فرق رکھنا محال ہو گیا ہے۔ میں یہ پو چھنے کی جسارت ضرور کرنا چاہوں گی کہ اس تمام سفر میں وہ مقام کیسے آ گیا جب عورت نے خود پہ بے حیائی کی گالی کھانا گوارا کر لی؟ ’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘ کا تصویری پوسٹر ایک گالی ہے نہ صرف ہماری روایات پر، عورت کی شرم اور نزاکت پر بلکہ کسی بھی معاشرے کے ( حتیٰ کہ یورپی اور امریکی معاشرے کے بھی ) اٹھنے بیٹھنے کے آداب کے خلاف ہے۔

نعرے کسی بھی تحریک کی اصل آواز ہوا کرتے ہیں۔ میں یہ بھی پوچھنا چاہوں گی کہ ہمارے یہاں کی سینیئر فیمنسٹ خواتین نعروں میں الفاظ کے چناؤ پر دھیان کیوں نہیں دیتیں جو ان کی سپہ سالاری میں لگائے جاتے ہیں؟ تعلیم یافتہ اور مہذب قوموں میں ’لفظ‘ کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے۔

اگر تو فیمنزم خواتین کے حقوق کی تحریک ہے تو سب سے پہلے تو یہ دو مقاصد بڑے واضح ہونے چاہیئں۔ ایک یہ کہ یہ عورت کی سماجی، معاشی، اور نفسیاتی آزادی کی تحریک ہے اور دوسرے یہ کہ یہ ہر مرد کے خلاف اعلان جنگ نہیں۔ اس مندرجہ بالا تعریف کے تحت میں دعویٰ کرتی ہوں کہ میں سب سے بڑی فیمنیسٹ ہوں۔ مگر میرا فیمنسٹ ہونا مجھے مرد سے ٹکر لینا یا نفرت کرنا نہیں سکھاتا۔

میں اس بات پہ مکمل یقین رکھتی ہوں کہ جو پیغام سننے میں ہی بھلا نہ لگے، وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمارے معاشرے میں اس تحریک کے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں اگر سوچ میں اور نعروں میں تھوڑی تبدیلی لائی جائے۔ مثلاً مرد سے برابری کرنا ہی ہے تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے۔ آدھا آدھا فرض ہمار ا۔ یا۔ آدھا بوجھ میں اٹھاؤں گی۔

اپنی طاقت بتانا مقصود ہے تو کہا جا سکتا ہے۔ میں ہوں آج کی سوپر وومن۔ یا۔ Trust me I am equally powerful۔ یا۔ میری نرمی، میری قوت۔ یا۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے

مرد پہ اپنی صلاحیات کی دھاک بٹھانا مقصود ہو تو کہیے۔ چولہا بھی میرا، چاند بھی میرا

معاشرے میں اپنی اہمیت بنانا بھی ضروری ہے اور بتانا بھی، تو یوں کہا جا سکتا ہے۔ میں ہوں آنے والا کل۔ یا۔ میرا آج، اس قوم کا کل۔

یا، میں مستقبل کا چہرہ ہوں۔ یا، میں ماں بھی ہوں، اور بیٹی بھی۔

اور میرا جسم میری مرضی جیسے واہیات نعرے کی جگہ یہ نعرہ بھی بلند کیا جا سکتا ہے۔ عورت، سب کی سانجھی عزت۔ یا، میں عورت ہوں، میں عزت ہوں۔

آج مجھ جیسے ناقص ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ فیمنزم کے نام پر با اختیار عورت کمزور عورت کا استحصال کر رہی ہے۔ فیمنزم پہ بات کرنے کے لئے جس سنجیدگی، وقار اور احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے وہ ’عورت مارچ‘ کے جلسوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments