ایک بچے کی موت اور شفاف رپورٹنگ۔۔۔


\"usmanاہل وطن کو خبر ہو کہ ایک اور بسمہ نے سیاست کی بساط پر تڑپ تڑپ کر جان دے دی مگراب کی بار کسی نے ماتم نہیں کیا، تین دن کے اس شیرخوار وجود کا، جس کا ابھی نام بھی نہیں رکھا گیا تھا، نشان مٹ گیا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب شیخ رشید جمعے کی سہ پہر ہیرو مافق موٹرسائیکل پر گلیوں میں گوریلا بنے گھوم رہے تھے، پولیس نے کمیٹی چوک راولپنڈی پرآنسوگیس کی شیلنگ کی، دھواں اتنا شدید تھا کہ آس پاس کے مکینوں کا سانس لینا بھی دشوار ہو گیا، تنگ گلیوں کے چھوٹے چھوٹے مکانات میں رہنے والے مکین جب سانس لینے کی جدوجہد میں مصروف تھے تو ایک بے نام وجود زندگی کی بازی ہار گیا۔

ماں نے بہت کوشش کی، اس کو ہلایا جھلایا، وہ حرکت نہیں کر رہا تھا، اس کے چہرے پہ پانی چھڑکا، اس کو اپنی چھاتی سے لگایا، وہ بالکل خاموش تھا۔

باپ گود میں لے کر بھاگا ، رکاوٹیں عبور کرتا ہوا اسپتال پہنچا، ڈاکٹروں نے بتایا کہ نومولود کے پھیپھڑے کمزور تھے، وہ گیس کی شدت نہ سہہ پائے ، بچہ مرچکا ہے

ماں کی دہائی ایسی کہ فرش کانپ جائے، عرش گرپڑے، کہتی ہے نومہینے کوکھ میں رکھا ہے، قاتلو! ایک سیٹ کے لیے جان لے لی

وہ کہتی ہے کہ میرا سیزرین ہوا تھا، تم کیا جانو کہ ایک ماں کس کرب سے گزرتی ہے، اس نے اپنے شوہر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پورے نوماہ اس کا ایک پیر اسپتال میں تھا، دوسرا گھر میں ، ادھر وہ دوسرے بچوں کو سنبھالتا، ادھر میرا خیال رکھتا، ارے یہ تم نے کیا کردیا\"index\"

وہ کہتی ہے کہ کوئی اس کا بچہ لا دو ورنہ وہ مر جائے گی مگر کوئی جا کر اسے بتائے کہ بی بی بس کر دے۔ تیرا بچہ، تیرا  بسمہ نہیں رہا۔ تجھےشور کرنے کا حق نہیں، اپنی زبان بند رکھ، ارے آنسو پی جا، بی بی جو ہوا، اسے بھول جا، اگلی بارپھر بچہ پیدا کر لینا، ہم نے اس والے کو تبدیلی کے لیے شہادت کے درجے پر فائز کر دیا ہے

باپ کہتا ہے کہ بچے کی موت کے ذمہ دار حکومت، عمران خان اور شیخ رشید ہیں مگر حکومت اور عمران خان یہ بات نہیں مانتے، وزیراعظم کے مشیر مصدق ملک نے افسوس کیا مگر معافی مانگنے کی زحمت نہیں کی، عمران خان نے بھی معافی مانگنے سے انکار کر دیا، کہتے ہیں کہ بچے کی موت کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، شیخ رشید نے کہا ہے کہ انہیں اللہ معاف کر دے گا۔

جب کراچی میں بسمہ کی ہلاکت ہوئی تھی تو ابھی باپ لاش لے کر باہر ہی نکلا تھاکہ ذمہ دار بلاول بھٹو قرار دے دیا گیا جبکہ باپ نے کسی پر الزام نہیں لگایا تھا، اسے تو بات کرنے کا موقع تک نہیں ملا اور سب نے خود فرض کرلیا کہ قاتل کون ہے، تین دن تک میڈیا نے خصوصی ٹرانسمیشن چلائیں، بلاول بھٹو متاثرہ فیملی کے گھر \"updates\"پہنچا، والد کو نوکری دی، آج تک اس فیملی کی کفالت کررہا ہے، متاثرہ فیملی سے ملاقات کے دوران موبائل فون سے بننے والی ایک ویڈیو میں بسمہ کے والد اور بلاول بھٹو کی گفتگو بھی میڈیا میں نشر ہوئی ، جس سے پتہ لگا کہ بسمہ کی ہلاکت کی وجہ پروٹوکول نہیں تھی، پولیس نے ناکہ کھول کر بسمہ کے والد کو اسپتال جانے دیا تھا، یہ تمام تفصیلات باپ نے بلاول بھٹو کو بتائیں مگر اس وقت تک \”بلاول بھٹو قاتل\” سے لے کر \”بسمہ مر گئی\”، \”بھٹو زندہ ہے\” کے عنوان سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر انقلاب برپا کیا جا چکا تھا۔

بلاول بھٹو کو قاتل میڈیا اور سوشل میڈیا نے قراردیا تھا مگر راولپنڈی کے شیرخوار کا معاملہ والدین کے الزام کا ہے، والدین براہ راست حکومت، عمران خان اور شیخ رشید کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں مگر سب خاموش ہیں، ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ذمہ دار کہلائے جانے والے جھوٹے منہ معافی کو تیار نہیں بلکہ ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ یقیناً اس سانحے کو حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے مگر جھوٹے منہ معافی مانگ لینے میں حرج کیا ہے، غمزدہ والدین کی دہائیاں سن کر انہیں تسلی دینے سے رعوانت میں کون سا فرق آ جائے گا۔

ایک ایسا ملک جہاں سفاکیت سے قتل ہونے والے جوانوں کو قربانی اور شہادت کا لیبل لگا کر ان کی ہلاکت کو جواز فراہم کیے جاتے ہوں،وہاں اس بے نام وجود کی کیا حیثیت؟ مگر کیا ہے کہ شیرخوار کا باپ اپنے جگر گوشے کی ہلاکت کو معمولی نہیں سمجھتا، وہ کہتا ہے کہ وہ جوآج اس نے بھگتا، کل پوری قوم بھگتے گی۔ اس نے کہا کہ دیکھ لینا، تم سب میری طرح دہائیاں دو گے، میری طرح سرپٹکو گے، تم سب رؤگے

 عمران خان نے کہا تھا کہ شہادتیں نہیں ہونے دیں گے، کوئی بنی گالا کے اس بادشاہ کوخبر کرے کہ حضور شہادت ہو چکی، لاش مل گئی مگراس خون کے دھبے جناب \"sheikh-rasheed\"کے دامن پہ ہیں، کوئی جا کر حکومت کو بتائے کہ کمیٹی چوک پہ جمع 20 لوگوں کے لیے آپ نے اتنی شیلنگ کی کہ 10 ہزار لوگوں کومنتشر کرنے کے لیے کافی تھی اور اس کارنامے نے ایک زندگی کو چھین لیا، کوئی شیخ رشید کو بتائے کہ چی گویرا کی طرح گلیوں میں آپ کی اچھل کود سے ہم بہت محظوظ ہوئے، آپ کا سگار سلگا کر خطاب کرنا ہمارے دلوں کو چھوگیا مگر آپ کا یہ پھدکنا ایک ننھی جان لے چکا ہے۔

بادشاہت یہ نہیں ہے کہ کس کے پاس کتنی دولت ہے اور کس نے کتنے اثاثے بنائے۔ بادشاہت یہ ہے کہ ایشوز کو ہائی لائٹ کرنے کا اختیار رکھنے والے اپنی ذاتی پسندوناپسند کے اعتبار سے معاملات کو قوم کے سامنے لاتے ہیں۔ یہاں معاملات کو سامنے لانے کا معیار انصاف نہیں بلکہ پسند وناپسند ہے۔ شیرخوار کی ہلاکت کے ذمہ داروں کے حمام میں حکومت اور عمران خان دونوں ننگے ہیں اور دونوں کے میڈیا سیل اور سوشل میڈیا پر موجود حامی اس سانحے کو پی گئے۔ مجال ہے کہ کسی نے کوئی بات کی ہو، اس شیرخوار کی ہلاکت کے ذمہ داروں کے حمام میں میڈیا بھی ننگا ہے، ہیجان اس نے پیدا کیا، حالات کو اس نہج پر میڈیا نے پہنچایا ، چند لوگوں کی رفاقت میں آنے والا پنڈی بوائے پوری قوم کا ترجمان بنا دیا گیا۔

میڈیا نے نہیں بتایا کہ عمران خان شہربند کر دینے کے اعلان کے ساتھ کنٹینرز ہٹانے کے جس عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پہ قوم کے جذبات برانگیختہ کررہے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کا وہ حکم دراصل پی ٹی آئی وکلا کی ان تحریری یقین دہانیوں کے بعد دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف شہر بند نہیں کرے گی۔

ایسی جانبدارانہ خبروں کے بعد ہیجان پیدا ہونا ناگزیر ہے، سب کو بتایا جارہا ہے کہ احتجاج روک کر ناانصافی ہو رہی ہے۔ میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ عمران خان کے پیچھے گھوم رہی ہے کہ خدارا کسی بھی میدان میں جلسہ کر کے احتجاج کر لیں تاہم شہر بند نہ کریں۔ شہر بند کرنے کی صورت میں وہ پکڑ دھکڑ پر \"imran\"مجبورہوں گے تاہم عمران خان نے تمام کارکنان کو کانٹا سمجھ کر اقتدارکے سمندرمیں ڈال دیا ہے جہاں وزیراعظم بننے کی مچھلی پکڑنے کی تگ ودو جاری ہے۔

دنیا ٹی وی کی رپورٹر کو تحریک انصاف کے کارکن نے تھپڑ مارا تو جیو نیوز کی رپورٹر آگے بڑھی اور عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب ہمارے ایک ساتھی کو تھپڑ مارا گیا ہے

عمران خان نے پوچھا کہ آپ کون سے چینل سے ہیں

رپورٹر نے بتایا کہ وہ جیو نیوز سے ہیں

عمران خان نے جواب دیا کہ پہلے اپنی رپورٹنگ ٹھیک کریں

مگر تھپڑ تو دنیا نیوز کے رپورٹرکو ماراگیا ہے، جیونیوز کی رپورٹر وضاحتیں کرتی رہ گئی اور وہ بادشاہ سلامت ہنس کرچل دیئے۔

اگر خود سری کا یہ معیار ہے تو پاکستانیو! کل کیا ہوگا، سوچا ہے تم نے؟

http://https://web.facebook.com/UsmanGhaziOfficial/videos/612108448961387/?__mref=message&_rdr

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments