زندگی جینے کا خوبصورت اور دلکش آرٹ


ہم سب کی آج کی تحریر اس قدر اہم اور خوبصورت ہے کہ اس تحریر کوپڑھنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کا زندگی کے بارے میں نظریہ ہی بدل جائے گا۔ اور یہ بات میں آپ کو گارنٹی سے کہہ رہا ہوں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان کسی نے دیکھا ہے جو شرارتی بچوں کی طرح ہنسا کھیلنا نہیں چاہتا۔ دنیا کے تمام انسانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی طرح مسکرائیں، شرارتیں کریں اور زندگی کو انجوائے کرے۔ ہم میں سے ہر انسان بچوں کی طرح زندگی کو انجوائے کرسکتا ہے اس کا ایک انتہائی آسان طریقہ ہے۔

وہ طریقہ یہ ہے کہ خود پر ہنسنا سیکھیئے۔ اپنے آپ کا مذاق اڑانا سیکھیئے۔ دوسروں کی ناکامیوں، کمیوں کا تو سب مذاق اڑاتے ہیں ہم میں سے ننانوے فیصد لوگ یہی کررہے ہیں دوسروں کا مذاق اراتے ہیں، دوسروں پر تنقید کرتے ہیں دوسروں کی ناکامیوں پر ان کو طعنے دیتے ہیں۔ ویسا نہیں بننا اپنی کمیوں، ناکامیوں اور کامیابیوں کا مذاق ارایئے اور ہنسیئے۔ یہ سب کچھ بغیر کسی خوف کے اور کھل کر کرنا ”بغیر کسی ڈر کے اپنے آپ پر ہنسنا ہے۔

ایسا کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ اور کیسے خود کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے؟ مثال کے طور پر کسی سے جھگڑا ہو گیا، کسی نے بدتمیزی کردی، کسی نے آپ کو بد شکل اور بدمزاج یا گھٹیا کہہ دیا، کسی نے گالیاں دی۔ کسی وجہ سے آپ ناکام ہو گئے۔ یہ سب بھیانک خواب کی طرح دماغ میں رہ جاتے ہیں انسان کڑھتا رہتا ہے اور افسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوگیا۔ جب ایسا کوئی وقعہ پیش آئے تو سب سے پہلے اپنی بے وقوفی اور نادانی پر اکیلے میں خود پر ہنسنا ہے۔

پھر گھر والوں کو بتانا ہے کہ آج فلاں سے جھگڑا ہو گیا انہوں میری خوب پٹائی کی۔ اس طرح واقعہ سنائیں اور اپنا مذاق ارائیں کہ گھر والے بھی کہیں کیسا بے وقوف اور نادان ہے ہمارا بچہ۔ ایسا کرنے سے آپ کو خوشگوار توانائی ملے گی۔ وہ لوگ جو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، آپ پر تنقید کرتے ہیں جوآپ کو چھیڑتے ہیں جس کی وجہ سے آپ غصے میں آکر ان سے لڑ پڑتے ہیں۔ یہ سب خاموش ہوجائیں گے کیونکہ آپ ان سے وہ طاقت ہی چھین لے گے جس کی وجہ سے وہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی طاقت آپ کا غصہ تھا۔ وہ چھیڑتے تھے آپ کو غصہ آتا تھا۔ جب وہ طاقت ہی ان کے ہاتھ سے چلی جائے گی تو وہ کیسے آپ کا مذاق اڑائیں گے۔

جب خود ہی آپ اپنی کمی، کوتاہیوں اور ناکامیوں کا مذاق بنانا شروع کردیں گے اور کھل کر ہنسیں گے تو وہ خاموش ہو جائیں گے وہ پریشان ہو جائیں گے کہ کیا ہوگیا؟ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی تبدیلی ہے لیکن یاد رکھیں اس چھوٹی سی تبدیلی سے آپ کی زندگی خوشگوار ہوجائے گی غصہ، پریشانی اور فریسٹریشن آپ کی زندگی سے نکل جائیں گے سب غائب ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے سے انسان کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس کی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے، وہ کھل کر زندگی جینا شروع کردیتا ہے۔

دوسرے بس اتنا کہیں گے کہ کیسا بے وقوف اور پاگل انسان ہے اپنا مذاق اڑارہا ہے۔ جب اپنا مذاق اڑانا اور اپنے آپ پر ہنسنا انسان سیکھ جاتا ہے تو وہ سپنی بڑی سے بڑی ناکامی اور کامیابی کا بھی مذاق اڑاسکتا ہے۔ اس دنیا کے بہت سارے انسانوں میں غیرمعمولی پوٹینشل ہوتا ہے لیکن ان میں سے بہت سارے انسان اپنے پوٹینشل کو زندگی بھر استعمال ہی نہیں کرتے کیونکہ ان کو خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ اس میں ناکام ہو گئے تو دنیا کیا کہے گی۔

بات کو گہرائی سے سمجھیں کہ اس پوٹینشل کو استعمال نہ کرنے کی وجہ وہ ڈر تھا کہ دنیا والے کیا کہیں گے اگر ناکام ہوگیا تو؟ لیکن جب انسان کو اپنی ناکامی اور کامیابی پر ہنسنے اور مذاق اڑانے کی عادت ہو گی تو وہ بڑا کام کرنے سے نہیں ڈرے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کامیاب ہوا یا ناکام وہ ان لمحوں کو خود انجوائے کرے گا۔ یہ ڈر ہی بے تکا ہے کہ دنیا کیا سوچے گی دنیا جائے بھار میں آپ ناکام ہوئے یا کامیاب دنیا کا تو ایک ہی کام ہے مذاق ارانا اور تنقید کرنا۔

اس وقت اس دنیا میں جو بھی انسان کھل کر زندگی کو انجوائے کررہے ہیں ان سب میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے اوپر کھل کر ہنسنا جانتے ہیں اپنا مذاق اڑانا جانتے ہیں۔ دنیا کیا کہے گی کیا سوچے گی یہ اہم نہیں ہے اہم ہے کھل کر جینا آزادی سے زندگی انجوائے کرنا اور یہ آرٹ ہے اور یہ آرٹ انسان پر تب نازل ہوتا ہے جب انسان خود پر ہنستا ہے۔

ایسے انسان جو اپنے آپ پر ہنستے ہیں جب وہ بڑی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں، بے تحاشا دولت پالیتے ہیں تب بھی وہ معصوم بچے کی طرح ہی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں قہقہے ختم نہیں ہوتے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے یہ کامیابی، پیسہ شہرت عارضی ہے اس لئے وہ اپنی کامیابی کا مذاق اڑاتے ہیں اور ایماندار ی سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ کامیابی کو جوتی کی جگہ پر رکھتے ہیں کامیابی کو سر پر سوار نہیں کرتے۔ وہ جنہیں اپنے آپ پر ہنسنے کا آرٹ نہیں آتا جب ان کے پاس دولت شہرت آجاتی ہے وہ طاقتور ہوجاتے ہیں تو کامیابی ان کے سر پر سوار ہوجاتی ہے۔

ایگو سے بھر جاتے ہیں ہنسنا بھول جاتے ہیں اکڑ جاتے ہیں۔ جب انسان اکڑ گیا تو یاد رکھیں وہ زندہ لاش بن گیا۔ جب انسان اکڑ جاتا ہے تو یاد رکھیں اس کے اندر سے شرارتی بچہ مر جاتا ہے۔ جب مسکراہت سنجیدگی میں بدل جائے اور انسانی دماغ آنا کا گھر بن جائے تو پھر انسان زندگی انجوائے کرنا بھول جاتا ہے پھر وہ خود کو اور دوسروں کو تکلیف دینے والا انسان بن جاتا ہے۔ اس لئے بڑی سے بڑی کامیابی اور بڑی سے بڑی ناکامی کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں لینا چاہیے۔ اور یہ انداز انہیں آتا ہے جو خود پر ہنسنا جانتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ ہر انسان کا دماغ بدھا جیسا ہونا چاہیے اور اس کا دل چھوٹے سے معصوم بچے کی طرح۔

Munawwar Zarif in 1959

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments