دیکھو دیکھو، کون آیا، کرونا آیا، کرونا آیا


یوں تو کرونا صاحب کو کسی تعارف اور کسی توصیف کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی زمانے کی چال سے بے خبر افراد کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کرونا کسی دہشتگرد گروہ کا نام نہیں ہے البتہ کرونا وائرس اور دہشتگرد گروہ کے کام میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ کرونا وائرس نے چائنا کے صوبے ووہان میں جنم لیا۔ اسی وائرس نے چائنا میں کم و بیش 2500 کے لگ بھگ افراد کی جان لی ہے۔ وائرس کو ووہان کی ہوا نہ بھائی تو چائنا کے دیگر صوبوں کے علاوہ ملک سے باہر کی ہوا کھانی مناسب سمجھی۔ اب یہی کرونا صاحب ایران، جنوبی کوریا اور یورپ کے ملک اٹلی تک جا پہنچا ہے۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کرونا وائرس کے علاج کا پتہ نہیں چلایا جا سکا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک وائرس کے تدارک کے لئے ویکسین کی دریافت میں کم از کم چودہ سال لگتے ہیں۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ وائرس انسانی جسم میں چوبیس دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور جاتے جاتے کبھی جان بھی لے جاتا ہے۔ علاوہ ازیں متاثرہ افراد میں جوانوں اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کرونا وائرس بچوں کو کم ہی اپنا نشانہ بناتا ہے۔

اب جب کرونا وائرس نامی بلا پاکستان کے سرحدوں پر منڈلا رہی ہے تو کیا پاکستان میں بھی چائنا کی طرح کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے لازمی اور ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اگر اس کا جواب نا میں ہے تو ہمیں من حیث القوم اس اہم مسئلے پر مباحثے اور مکالمے کا انعقاد کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں صورتحال کافی مایوس کن لگ رہی ہے۔ اس وقت دارالحکومت کوئٹہ میں دس روپے والا ایک ماسک پانچ سو روپے میں بک رہا ہے۔ یہی نہیں صوبائی حکومت نے وائرس سے نمٹنے کے لئے محکمہ صحت کے اہلکاروں کی بجائے پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو کرونا وائرس سے نمٹنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ متعلقہ محکمہ کے اہلکاروں کی تربیت، اہلیت اور قابلیت پر صوبے بھر میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔

صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے رویے اور کارکردگی پر خدشات اور تحفظات کے باوجود ہمیں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے بنیادی معلومات کی تحصیل اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس جان لیوا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ احتیاطی تدابیر میں روزانہ لیموں ملا نیم گرم پانی کا ایک گلاس پینا، ماسک پہننا، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کرنا، ہاتھوں کو حتی الامکان چہرے تک لے جانے سے گریز کرنا، وٹامن سی سے بھرپور خوراک لینا اور دن میں کئی بار صابن سے ہاتھ دھونا شامل ہے۔

دیکھا جائے تو سب سے بڑی ذمہ داری موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی بنتی ہے۔ صوبائی و وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ چائنا سے ماہر ڈاکٹرز کی ٹیمز بلائے جو کرونا وائرس سے نمٹنے کی ساتھ ساتھ مقامی ڈاکٹرز کی تربیت بھی کریں۔ ایران سے کرونا وائرس کی تشخیص میں مددگار کٹ کی درآمد کو یقینی بنائیں۔ ایران و افغانستان سے متصل سرحد پر کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کڑی نگرانی کریں۔ ملک میں ماسک کی کھپت بڑھائی جائے اور عوام کو اس حوالے سے سبسڈی دی جائے۔ لیموں کی کاشت پر توجہ دی جائے۔ عوام میں ماس میڈیا کے ذریعے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جائے۔ مندرجہ بالا اقدامات اٹھا کر ہی ہم کرونا وائرس سے بچ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments